صدر جوبائیڈن بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ ایرانی حکومت کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ سفارت کاری ہے۔
اپریل 2021 سے امریکہ ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں مصروف ہے جس کا مقصد ایران کے ساتھ جوہری کے مکمل نفاذ کی طرف باہمی واپسی ہے۔
امریکہ 2018 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اس معاہدے سے نکل گیا تھا اور اس کے بعد ایران کو اتنی مہلت مل گئی کہ وہ اپنی مرضی سے جوہری ہتھیاروں کے لیے جتنا چاہے مواد تیار کر لے۔ اس معاہدے سے امریکی اخراج سے قبل وہ کام جو وہ ایک سال میں کر سکتا تھا گھٹ کر ہفتوں اوردنوں تک رہ گیا۔
العربیہ کوانٹرویو دیتے ہوئے، امریکی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے رابطہ کار جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کسی جوہری معاہدے کے ساتھ یا اس کے بغیر بھی ہم اپنی قومی سلامتی کے مفادات کا بھرپور تحفظ کر رہے ہیں۔
جان کربی کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے لیے ایران پر پابندیوں کے علاوہ عسکری آپشنز کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
مسٹر کربی نے کہا کہ امریکہ ایسے اقدامات سے گریز کرنے کو ترجیح دے گا۔ ایران کو کچھ فیصلے کرنے ہیں۔ نہ صرف [ایٹمی] معاہدے کے حوالے سے مذاکرات کی میزپربلکہ وہ خطے میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بھی اس سلسلے میں آگے بڑھ سکتا ہے۔
مسٹر کربی نے مزید کہا کہ ایران کے لیڈردہشت گرد نیٹ ورکس کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ بحری گزرگاہوں کے لیے خطرہ بنے ہوئےہیں۔ یہ وہی ہیں جومشرق وسطیٰ کے اندرسیاسی محاذ پرعدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ اور اس قسم کے کاموں سے خود کو روکنے کے لیے اپنے طور پرانہیں کچھ فیصلے کرنے ہوں گے۔
اس طرح انہیں امریکہ اور دوسرے ممالک سے معاشی اورعسکری طورپرجس دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، اس سے وہ بچ سکتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**