مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں فوری کمی اور جنگ بندی

فائل فوٹو

امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پوری شدومد سے کام کر رہا ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد گزشتہ 10 مہینوں میں تنازعہ المناک طور پر بھڑک اٹھا ہے۔

حماس کے حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں بیشتر عام شہری تھے جب کہ 240 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی۔ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے اور خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اسرائیل اور خطے میں حماس، حزب اللہ اور حوثیوں سمیت اسرائیل اور ایرانی پراکسیوں کے درمیان حالیہ دنوں میں کشیدگی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ جو بیروت میں حزب اللہ کے ایک کمانڈر کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت اور تہران میں حماس کے رہنما کی ہلاکت کے بعدسامنے آئی ہے۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نےایک پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ خطے اور اس سے ماورا علاقوں میں شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بات چیت میں واضح طور پریہ اتفاق ہے: کسی کو بھی اس تنازع کو بڑھانا نہیں چاہیے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بھرپور سفارت کاری میں مصروف ہے اور ’’اس پیغام کو براہ راست ایران تک پہنچا رہا ہے۔ ہم نے اس پیغام کو براہ راست اسرائیل تک بھی پہنچایا ہے۔

وزیرِ خارجہ مزید کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہماری آہنی وابستگی ہے۔ ہم دہشت گرد گروپوں یا ان کے معاونین کے حملوں کے خلاف اسرائیل کا دفاع جاری رکھیں گے بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے فوجیوں کا دفاع کرتے رہیں گے۔ لیکن خطے میں ہر ایک کو سمجھنا چاہیے کہ مزید حملے صرف تنازعات، عدم استحکام اور ہر ایک کے لیے عدم تحفظ کا باعث ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ خطے میں ہر شخص صورتحال کا جائزہ لے، غلط اندازوں کے خطرات کو سمجھے اور ایسے فیصلے کیے جائیں جو کشیدگی کو کم کریں اور ان میں اضافہ نہ کریں۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ اسرائیل اور حماس کے لیے جنگ بندی کو حتمی شکل دینا ہے۔ غزہ کے تنازعے کے لیے معاہدے کا فریم ورک دو ماہ قبل سب سے پہلے اسرائیل نے تجویز کیا تھا اور اس کا اعلان صدر جو بائیڈن نے کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کن لمحہ ہے۔ مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں بہت جلد ختم ہو جانا چاہیے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے اعلان کیا کہ ’’اور یہ غزہ کے لوگوں کے لیے صورتِ حال کو بدلنے اور یرغمالوں کی واپسی کے علاوہ ہمیں غزہ کے لیے مزید پائیدار امن قائم کرنے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امکانات کی راہ ہموار کرتا ہے۔

یہ دوسرے امکانات کو بھی وسیع پیمانے پر سامنے لاتا ہے جس میں کھچاؤ کو کم کرنا اور حقیقی سلامتی اور استحکام لانا شامل ہے۔ ہماری توجہ انہی مقاصد پر مرکوز ہے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔