امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے خطاب میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ یکم مئی سے افغانستان سے اپنی افواج کی حتمی واپسی شروع کر دے گا اور اسے اس سال 11 ستمبر تک مکمل کرلے گا۔
تقریباً 20 سال پہلے امریکی افواج القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے اور مستقبل میں افغانستان سے جنم لینے والے دہشت گرد حملوں سے بچاؤ کے لیے افغانستان گئی تھی۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ ہمارا مقصد واضح تھا اور نصب العین منصفانہ تھا۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی فوجی واپس اپنے گھر آ جائیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ کئی برسوں کے دوران دہشت گردی کے خطرے کی نوعیت بدل گئی ہے اور اس لحاظ سے لازم ہے کہ امریکہ کے ردِعمل میں بھی تبدیلی آئے۔ اب یہ خطرہ دنیا بھر میں زیادہ پھیل چکا ہے۔
صومالیہ میں الشباب، جزیرہ نما عرب میں القاعدہ، شام میں النصرہ قائم ہے جب کہ داعش شام اور عراق میں خلافت اور افریقہ اور ایشیا کے مختلف ممالک میں اپنی شاخیں قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔
صدر بائیڈن نے وضاحت کی کہ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی حکمتِ عملی میں تبدیلی لا رہا ہے۔
اُن کے بقول ہم دہشت گردی کا تدارک کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور علاقے میں اپنی قوتوں کو از سرِ نو منظم کریں گے تاکہ دہشت گردوں کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکا جا سکے۔
صدر بائیڈن کو کہنا تھا کہ ہم طالبان کو ان کے اس عہد کے لیے جواب دہ بنائیں گے کہ افغانستان کی سرزمین سے کسی بھی ایسی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی جس سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرات لاحق ہو جائیں۔
بائیڈن نے مزید کہا کہ افغان حکومت نے بھی ہم سے ایسا ہی وعدہ کیا ہے اور ہم اس خطرے پر جس کا آج ہمیں سامنا ہے اپنی پوری توجہ مبذول کریں گے۔
صدر بائیڈن نے امریکہ کی مسلح افواج کے ان جوانوں اور خواتین کی شجاعت، ہمت اور دیانت کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے افغانستان میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے امریکہ کے اتحادیوں اور شراکت داروں کی خدمات اور قربانیوں کا بھی اعتراف کیا جو تقریباً 20 سال تک ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔
امریکہ جب کہ افغانستان میں فوجی اعتبار سے سرگرم نہیں رہے گا صدر نے یہ واضح کیا کہ افغانستان کی مدد کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اُن کے بقول ہم افغانستان کی حکومت کی مدد جاری رکھیں گے، ہم افغانستان کے قومی دفاع میں مدد اور سیکیورٹی فورسز کو اعانت مہیا کرنا برقرار رکھیں گے۔
صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ، علاقے کے دوسرے ملکوں پر بھی زور دے رہا ہے کہ وہ افغانستان کی مدد کریں۔ ان ملکوں میں پاکستان، روس، چین، بھارت اور ترکی شامل ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ افغانستان کے مستحکم مستقبل میں ان سب کے خاصے مفادات مضمر ہیں۔
صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ افغانستان میں جنگ کا مقصد کبھی یہ نہیں تھا کہ یہ کئی نسلوں کی ذمے داری بن جائے۔ ہم پر حملہ کیا گیا تھا۔ ہم نے واضح اہداف کے لیے جنگ شروع کی۔ ہم نے وہ مقاصد حاصل کر لیے۔ بن لادن مر چکا اور افغانستان میں القاعدہ کو رسوا کیا جا چکا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**