امریکہ اور دنیا بھر کے ملکوں نے عوامی جمہوریہ چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ سائبر اسپیس کے شعبے میں مذموم سرگرمیاں کر رہا ہے جن میں یرغمال بنانے کے لیے حملے اور دانشورانہ املاک اور معلومات کی چوری شامل ہے جن سے براہِ راست چینی کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا۔
امریکہ کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ چین نے انٹیلی جنس کا ایک ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں کانٹریکٹ پر رکھے گئے ہیکرز شامل ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں بلا اجازت سائبر سرگرمیاں شروع کر رکھی رہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق ذاتی منفعت سے ہے۔
چین کا سائبر اسپیس کے شعبے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ اس کے اعلان شدہ مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا کہ وہ دنیا میں ذمہ دارانہ قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
دانشورانہ املاک اور معلومات کی چوری کی ایک مثال یہ ہے کہ سین ڈیاگو کیلی فورنیا میں ایک وفاقی گرینڈ جیوری نے مئی میں عوامی جمہوریہ چین کے سات شہریوں پر فردِ جرم عائد کی جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے 2011 اور 2018 کے درمیان امریکہ اور دوسری جگہوں پر درجنوں کمپنیوں، یونیورسٹیوں اور سرکاری کمپیوٹر کے نظام کی ہیکنگ کی مہم شروع کی تھی۔
فردِ جرم میں جو 16 جولائی کو امریکی محکمۂ انصاف نے جاری کی کہا گیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد ایسی معلومات جمع کرنا تھا جن سے چینی کمپنیوں اور تجارتی شعبوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اس سازش کا خاص محور ایسی اطلاعات تھیں جن سے طویل ریسرچ اور سخت مراحل سے گریز کرنا تھا۔
ڈنگ ژاویانگ، چن کنگمن اور یونمن ہنان کی ریاست کے سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں افسر تھے۔ یہ محکمہ چین کی سیکیورٹی کی وزارت کا صوبائی ادارہ ہے جو ایم ایس ایس فرنٹ کمپنیوں سے منسلک کمپیوٹر ہیکرز اور ماہر لسانیات کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتا ہے، ان کو سہولتیں فراہم کرتا ہے اور ان کا انتظام چلاتا ہے تاکہ چین اور سرکاری انتظام میں کام کرنے والے اداروں کے فائدے کے لیے ہیکنگ کر سکیں۔
وہوشرونگ ایک کمپیوٹر ہیکر تھا جس نے میل ویئر دریافت کیا تھا اور جس نے غیر ملکی حکومتوں، کمپینوں اور یونیورسٹیوں کے تحت چلنے والے کمپیوٹر نظام کو ہیک کیا اور ساتھ ہی ہنان ژیانڈن کے ہیکروں کی نگرانی کی۔
ہیکنگ کی اس مہم کے دوران امریکہ، آسٹریا، کمبوڈیا، کینیڈا، جرمنی، انڈونیشیا، ملائیشیا، ناروے، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ مذموم سائبر حملے سائبر سے متعلق چوری کی روک تھام کے لیے امریکہ اور چین کے درمیان 2015 میں طے پانے والے ایک سمجھوتے کے باوجود کیے گئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا اوموناکو نے کہا کہ یہ مجرمانہ اقدامات ایک مرتبہ پھر اس بات کو اُجاگر کرتے ہیں کہ چین سائبر کی مدد سے بدستور ایسے حملے کر رہا ہے جس سے دوسرے ملکوں کی مصنوعات کا راز حاصل کیا جا سکے، جو اس کے دو طرفہ اور کثیر طرفہ وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ ایم ایس ایس کے تین افسروں اور ان کے ایک کانٹریکٹ ہیکر کے خلاف فردِ جرم سے جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے، امریکہ چین کے قابلِ مذمت سائبر کرداروں کو سائبر اسپیس کے شعبے میں ان کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے نتائج بھگتنے پر مجبور کرے گا۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**