ماحولیات کا بحران ہمارے دور کا اصل امتحان ہے

فائل فوٹو

ماحولیات کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی جان کیری نے کہا ہے کہ عالمی ماحولیات کے بحران سے نمٹنے کی جدوجہد بنیادی طور پر اس نازک دنیا کے تحفظ اور اس کو بچانے سے عبارت ہے۔

اُن کے بقول یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ماحولیات کے بحران پر ردِعمل ظاہر نہ کرنے کی قیمت اس پر توجہ دینے کے مقابلے سے زیادہ ادا کرنی پڑے گی۔

لندن میں بات کرتے ہوئے مسٹر کیری نے کہا کہ ماحول کا بحران ہمارے دور کی آزمائش ہے اور اب وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ 2015 میں 196 ملکوں نے پیرس معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد دنیا کے درجۂ حرات کو دو درجے سلیسیس سے نیچے رکھنا اور اسے 1.5 تک محدود کرنے کی کوشش کرنا تھا۔

مسٹر کیری نے کہا کہ معاہدے کے تحت ہر ملک کو اس عہد کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے تئیں اس بات کا تعین کرے کہ وہ اجتماعی طور پر کیا کر سکتا ہے تاکہ دنیا کو صحیح راستے پر گامزن کیا جا سکے۔

تاہم پیرس میں کیے گئے وعدے کی گو ہر ایک نے پاسداری کی لیکن اس کے باوجود اس کرۂ ارض کا درجۂ حرارت پھر بھی 2.5 سے تین ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا۔ ہم پہلے ہی ڈرامائی نتائج دیکھ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں فصلیں اس جگہ نہیں اُگ رہی ہیں جہاں وہ پہلے اُگا کرتی تھیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ سمندروں کا احوال پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، لاکھوں لوگوں کو اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ اس لیے کہ وہاں رہائش کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں اور اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں دو کروڑ لوگ ہجرت کر رہے ہیں۔

جان کیری کا کہنا تھا کہ ہم سب پہلے ہی ہجرت کے سیاسی اثرات دیکھ چکے ہیں اور اب بھی اس بات کا انداہ ہے کہ جب آبادی والے مقامات رہائش کے قابل نہیں رہتے تو لوگوں کو ایسے دروازوں پر دستک دینی ہوتی ہے جہاں انسان بسیرا کر سکتے ہوں۔

مسٹر کیری نے کہا کہ اس وقت ہم یہ دیکھ رہے کہ درجۂ حرارت اعشاریہ دو درجے تک ہی بڑھا ہے۔

اس بات کا اندازہ کہ یہ دو گنا ہو سکتا ہے تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، ہم اس سے اب بھی بچ سکتے ہیں لیکن ہمیں صحیح معنوں میں کرۂ ارض کے تمام ملکوں کو اکھٹا کر کے ہنگامی بنیاد پر کام کا آغاز کرنا ہو گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا گیس کے اخراج کو کم کرے، خاص کر کاربن کی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو، یہ کم سے کم 2030 تک 45 فی صد تک ہونی چاہیے تاکہ اس صدی کے وسط تک ہم اسے بہتر سائنسی سطح پر لاتے ہوئے، بالکل صفر پر لا سکیں۔ نہ صرف کچھ ملکوں یا بعض میں بلکہ ساری دنیا میں۔ اس کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کن عشرہ ہے اور 2021 ایک فیصلہ کن سال کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

مسٹر کیری نے کہا کہ ہم یہ کام کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا لازم ہے، ہم مل جل کر یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں، خاص کر جب کہ ہم جیت اور المیہ کی صورت میں دو متبادل دنیا کا تصور ذہن میں رکھتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جو ہم ہمیشہ اس وقت انجام دیتے رہے ہیں جب دنیا کو اس کی اشد ضرورت پڑی ہے۔ ہم اس معاملے پر اکھٹے ہو سکتے ہیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**