چین کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق تحفظات

فائل فوٹو

ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے کو کم کرنا بائیڈن۔ ہیریس انتظامیہ کا ایک کلیدی نصب العین ہے۔

اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن نے جو اقدامات کیے ان میں روس کے ساتھ نیو اسٹارٹ معاہدے میں پانچ برس کی توسیع شامل تھی۔ اس کے تحت امریکہ اور روس دونوں کے اسٹرٹیجک ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر پر سمجھوتے کے مطابق، حد بندیوں کو 2026 تک جاری رکھا جائے گا۔ اس اقدام سے دونوں ملکوں کو اس بات کا وقت حاصل ہوسکے گا کہ وہ ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق نئے قابلِ تصدیق انتظامات کا جائزہ لے سکیں جن سے جنگ کے خطرات کو مزید کم کیا جا سکے۔

امریکہ، عوامی جمہوریہ چین کی اس بات کے لیے حوصلہ افرائی کر رہا ہے کہ وہ جوہری خطرات کو کم کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ معنی خیز انداز میں رابطے میں رہے۔ حالیہ برسوں میں پی آر سی اپنے ایٹمی اسلحہ خانے میں اضافہ کرتا رہا ہے۔

گزشتہ برس پینٹاگان کی ایک رپورٹ کے مطابق خیال ہے کہ چین موجودہ عشرے میں ایٹمی ہتھیاروں کے اپنے ذخیرے میں کم سے کم دو گنا اضافہ کرے گا۔

اب امریکہ کے دو محققین نے سیٹلائٹ تصویروں کو استعمال کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ پی آر سی بین البراعظمی فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کے لیے سو سے زیادہ ذخیرہ گاہیں تعمیر کر رہا ہے۔ یہ میزائل ایٹم بموں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو امریکہ تک مار کر سکتے ہیں۔ یہ ذخیرہ گاہیں صحرائے گوبی کے ساتھ گانسو صوبے کے دور اُفتادہ علاقوں میں تعمیر کی جا رہی ہیں۔

مانٹرے، کیلی فورنیا میں بین الااقوامی مطالعے کے مڈل بری انسٹیٹوٹ میں ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے جیمس مارٹن سینٹر کے ایک محقق جیفری لوئیس نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ چین کے بیلسٹک میزائلوں کے لے لیے ذخیرہ گاہوں کی تعمیر حیرت انگیز ہے۔ سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ تیاری اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی ہم توقع کر رہے تھے۔

پی آر سی جب کہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے لیے سیکڑوں ذخیرہ گاہیں تعمیر کر رہا ہے، امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پی آر سی کی جانب سے اپنی ایٹمی صلاحتوں کو توسیع دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان رپورٹوں اور دوسرے واقعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ پی آر سی کے اسلحہ خانے میں شاید پہلے سے لگائے جانے والے اندازے سے کہیں زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہو اور جس کی سطح کافی بلند ہو۔ اس سے پی آر سی کے ارادے کے بارے میں سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پی آر سی کس طرح ایک مرتبہ پھر عشروں کی ایسی ایٹمی حکمت عملی سے گریز کر رہا ہے جس کی بنیاد کم سے کم احتیاطی اقدام پر رکھی گئی ہے۔

ترجمان پرائس نے کہا کہ اس پیش رفت سے ایک مرتبہ پھر یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ ایٹمی خطرات کو کم کرنے اور غلط اندازوں سے بچنے کے لیے یہ ہر ایک کے مفاد میں ہے کہ ایٹمی طاقتیں براہ راست ایک دوسرے سے مذاکرات کریں۔

ہم بیجنگ کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ ہمارے ساتھ عملی اقدامات کے بارے میں بات چیت کرے تاکہ عدم استحکام پیدا کرنے والے ہتھیاروں کی دوڑ اور ممکنہ کشیدگیوں سے بچا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے صدر پوٹن کے ساتھ اپنی ملاقات میں فوجی نوعیت کے استحکام کو ترجیحات میں شامل کیا۔

اس حقیقت پسندی کے اطلاق کا انحصار ایک اور ایٹمی طاقت عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ رابطے پر ہو گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**