انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی چیلنجز کا مقابلہ

فائل فوٹو

انسانی حقوق کے لیے انتہائی تیزی سے ابھرتے ہوئے چیلنجز میں سے ایک ٹیکنالوجی ہے۔

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے فریڈم ہاؤس میں کی گئی اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ ایک وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت طاقت کے توازن کو انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں کے مقابلے میں انسانی حقوق کے محافظوں کے حق میں لائے گی۔

متعدد علاقوں میں انسانی حقوق کے محافظ ٹیکنالوجی کا استعمال بہتر نتائج کے لیے کر رہے ہیں تاہم آمرانہ اور جابرانہ حکومتوں نے ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

وزیر خارجہ بلنکن نے وضاحت کی کہ انسانی حقوق کا مستقبل چار اہم شعبوں میں تشکیل پائے گا- ان میں سے پہلا شعبہ نگرانی کی ٹیکنالوجی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری ڈیجیٹل زندگی ہم سب کو نگرانی کی ٹیکنالوجی کی نئی شکلوں کے سامنے کمزور کر دیتی ہے۔ تقریباً ہر براعظم میں صحافیوں، سیاسی کارکنوں، حزبِ اختلاف کی شخصیات، انسانی حقوق کے حامیوں اور دیگرافراد کو تجارتی بنیاد پر استعمال کیے جانے والے اسپائی ویئر سے نشانہ بنایا گیا ہے جو حکومتوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے لیے بآسانی دستیاب ہے۔

وزیر خارجہ بلنکن نے توجہ دلائی کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ تک آسان رسائی انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔

تاہم فریڈم ہاؤس کے مطابق انٹرنیٹ سنسرشپ اور حکومتوں کی طرف سے اس پر بندش اس وقت اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ’’آئیدہ غجر کے نیوز آؤٹ لیٹ ایران وائر نے ایران کے اندر سے اہم معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کیا تاکہ مظاہروں کے خلاف روا رکھے گئے جبر سے ہونے والی ہلاکتوں کی درست تعداد کا ریکارڈ مرتب کرنے سے لے کر مظاہروں کی لائیو فوٹیج شیئر کرنے تک سب کچھ ممکن بنایا جا سکے۔ جس میں حکومت کا کریک ڈاؤن اور اپنے نیٹ ورک اور شہری صحافیوں کے ذریعے رپورٹنگ کرنے اور اطلاعات پہنچانے جیسے کام شامل ہیں۔

وزیر خارجہ نے توجہ دلائی کہ ’’ایسے میں جب ہم سب کو انٹرنیٹ تک رسائی دینے کے لیے کوشاں ہیں ہم آن لائن ہراسانی ، بدسلوکی اور غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔‘‘

وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن خبردار کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق مصنوعی ذہانت اور جینومکس سمیت بائیو ٹیکنالوجیز کے ساتھ یکجا ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے بائیو ٹکنالوجی میں پیشرفت سے ڈی این اے کی بنیاد پر جینومک نگرانی کی صلاحیت سے ممکنہ طور پر بدسلوکی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور ہم نے اس کی کچھ مثالیں دیکھی بھی ہیں جن میں عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے سنکیانگ میں ایغوروں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ناروا سلوک دیکھا گیا۔ پھر تبت کی آبادی پر کنٹرول اور نگرانی کی ایک اضافی شکل کے طور پر وہاں بڑے پیمانے پر ڈی این اے جمع کرنے کی خبروں پر بھی ہمیں تشویش ہے۔

امریکی محکہ خارجہ ان لوگوں کے لیے ہنگامی اور قانونی مدد فراہم کرتا رہے گا جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا دفاع کر رہے ہیں اور فریڈم ہاؤس جیسے سول سوسائٹی کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں کام کرتے رہیں گے کہ انسانی حقوق کا بہتر انداز میں دفاع کس طرح کیا جائے اور دھمکیوں کے تناظر میں کیسے پیش رفت کی جائے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**