امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے واشنگٹن میں ایک حالیہ بحث کے دوران کہا ہے کہ دنیا ’’تبدیلی کے ایک اہم موڑ‘‘ پر ہے جہاں موجودہ فیصلے آنے والے کئی عشروں تک مستقبل کی تشکیل کریں گے۔
انہوں نے توجہ دلائی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نسبتاً سلامتی اور خوشحالی کے دور کے بعد بڑے پیمانے پر خلل اندازی کے کچھ بڑے عوامل سامنے آئے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’ظاہر ہے چین کےعروج میں اس موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کی طاقت اور ارادہ موجود ہے ۔ ہم سیاسی طور پر منتقم روس کے ساتھ ہر روز نمٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ باہمی تعلق اور بدقسمتی سے باہمی طور پر مضبوط بین الاقوامی چیلنجوں کا منظراور عالمی چیلنجزبھی ہمارے سامنے ہیں جن سے ہمیں مؤثر طریقے سے نمٹنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
ان چیلنجوں میں انفارمیشن سسٹم کا پھیلاؤ شامل ہے جس کے متعدد حادثاتی نتائج ہیں۔ ان میں نقل مکانی، خوراک کا عدم تحفظ، موسمیاتی تبدیلی، عالمی صحت کے لیے خطرات، جمہوریت کا فقدان اور جغرافیائی سطح پر سیاسی مقابلہ بازی جیسے عوامل شامل ہیں۔
وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس ایک واضح اور غیر مبہم وژن ہے جس کے مطابق ہم چاہیں گے کہ دنیا آزاد، محفوظ، کھلی اور خوشحال بنے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ کرنے میں آزاد ممالک کا راستہ کیا ہوگا اور ان کے شراکت دار کون ہوں گے۔ اس سے مراد ایک بین الاقوامی نظام ہے جو قواعد و ضوابط پر قائم کیا گیا ہو اور جو شفاف اور منصفانہ طور پرسامان ،معلومات اور لوگوں پرمنصفانہ اور مساوی طور پر لاگو ہوتا ہو۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ دوسری جانب ہمیں ایسے ممالک کا سامنا ہے جو ان اصولوں اور معیارات کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو گزشتہ 75 برسوں کے دوران خوشحالی کا باعث بنے ہیں۔
وہ ممالک جو اثر و رسوخ کے دائرہ کار کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور معاشی طاقت کے حصول کے لیےتخریبی طریقے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسے ممالک ہیں جو معلومات کو ہتھیار بناتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عالمی انسانی حقوق خالصتاً ان ممالک کا اندرونی معاملہ ہے۔
امریکہ اس نوعیت کے عالمی نظریے کا مقابلہ کرنے کے لیےسب سے پہلے مسابقت میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ دوسرا نیٹو اور مشرقی ایشیا میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’ایک ہی وقت میں ہم یکساں مقصد کے حصول کے لیے موزوں شراکت داری بھی قائم کر رہے ہیں جہاں مختلف ممالک اور نہ صرف ممالک بلکہ دوسرے اسٹیک ہولڈرز، فعال افراد ، نجی اورغیر سرکاری شعبےمختلف مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرنے کے لیے اکٹھے ہوں۔‘‘
وزیر خارجہ بلنکن نے ’’ بائیڈن کے نظریے‘‘ کی وضاحت کرنے کے سوال پر کہا کہ ’’یہ اندرون ملک ہماری طاقت، ہماری مسابقت اور سرمایہ کاری کے ساتھ شروع ہوتا ہے ۔ پھر اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ ہم مضبوط ہو رہے ہیں اور ضرورت کے مطابق نئے اتحاد اور نئی شراکت داریاں قائم کر رہے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہم اکیلے نہیں کر سکتے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**