سن 2023 وہ سال ہے جب بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ پر دستخط ہونےکے 25 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
امریکی کانگریس میں ایک حالیہ سماعت کے دوران ممتاز ایمبیسیڈر ایٹ لارج رشد حسین نے کہا کہ ’’امریکہ کی تاریخ میں اس بنیادی انسانی حق کا 25 برسوں سے تحفظ ہماری شناخت اور نظم ونسق کا اہم حصہ ہے جیسا کہ آئین کی پہلی ترمیم میں بیان کیا گیا ہے اوریہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی حصہ بھی ہے۔
سفیر حسین کہتے ہیں کہ امریکی محکمہ خارجہ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کا دفتر دنیا بھر میں مذہبی آزادی کا تحفظ اور دفاع کرتا ہے۔ اس میں چین میں ایذا برداشت کرنے والے مسیحی بھی شامل ہیں۔
سفیر کہتے ہیں کہ ’’بین الاقوامی مذہبی آزادی کے دفتر نے اس سال شین جین ہولی ریفارم چرچ کے ساتھ وسیع پیمانے پر کام کیا ہے جس کا مقصد اس چرچ کے ارکان کے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کا تحفظ کرنا ہے جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے بے پناہ دباؤ کے تناظر میں ہے اگر چہ وہ ارکان سات اپریل کو ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔‘‘
حالیہ برسوں میں چرچ کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے اور متعدد ممتاز چرچ بند کر دیے گئے ہیں۔
شین جین چرچ کو 2012 میں قائم کیا گیا تھا۔ تاہم اس کا اندراج نہیں کرایا گیا جس کی وجہ سے یہ غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں کے مطابق چرچ کے ارکان کو حکام کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے اور چرچ میں ہونے والی میٹنگز پر پولیس اکثر چھاپے مارتی تھی۔
حکام نے ایک خفیہ مذہبی اسکول کو بھی بند کرنے کی دھمکی دی جسے چرچ کے زیر انتظام چلایا جاتا تھا۔ دباؤ بڑھنے کے نتیجے میں ارکان نے چین چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا اور متعدد ارکان 2019کے اواخر سے 2020 کے آغاز کے دوران ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
شین جین چرچ نے اپنی آزادی کے سفر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو کا رخ کیا۔ انہیں وہاں پناہ ملنے کی امید کم تھی۔ دوسری مرتبہ چرچ کے ارکان تھائی لینڈ چلے گئے جہاں انہیں ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد گرفتار کر لیا گیا اور انہیں خدشہ تھا کہ انہیں جبری طور پردوبارہ چین نہ بھیج دیا جائے ۔
سفیر رشد حسین بیان کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں ، غیر سرکاری تنظیموں اور بین القوامی مذہبی آزادیوں کے دفتر یا آئی آر ایف نے چینی مسیحیوں کی رہائی کی وکالت کی۔
سفیر حسین کہتے ہیں کہ آئی آر ایف آفس میں ہماری اور شعبے کی وسیع کوششوں ، کانگریس اور امریکہ کے دوسرے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں کے نتیجے میں مجھے اس چرچ کے ارکان کا یہاں خیر مقدم کر نے کا اعزاز حاصل ہوا جب وہ امریکہ میں ڈی ایف ڈبلیو ائیر پورٹ پر پہنچے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے ٹیکساس چرچ میں سولہ مئی کو بحفاظت ایسٹر منایا۔
سفیر حسین کہتے ہیں کہ ’’ امریکی ہونے کی حیثیت سے ہم ان لوگوں کے ساتھ ہیں جنھیں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر مسائل کا سامنا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**