امریکہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے معاملے میں اپنی وابستگی پر سختی سے یقین رکھتا ہے۔ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ دنیا بھر میں بہت سے مقامات پر ہم برابر یہ دیکھتے ہیں کہ حکومتیں مختلف افراد کو محض اس لیے ہراساں کرتی ہیں، انہیں گرفتار کرتی ہیں، دھمکیاں دیتی ہیں اور پابندِ سلاسل کرتی ہیں اور جان سے مار ڈالتی ہیں کہ وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
بائیڈن- ہیرس انتظامیہ نے اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کی حمایت کی جائے گی جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کا قلع قمع کرنا اور ان کا سامنا کرنا شامل ہے۔
وزیرِ خارجہ کی ہر سال یہ ذمے داری ہے کہ وہ ایسی حکومتوں اور غیر سرکاری کرداروں کی نشان دہی کریں، جو مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیوں کی بنا پر بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ کے تحت پابندیوں کے مستحق ہوتے ہیں۔
اس سال وزیرِ خارجہ بلنکن نے اعلان کیا کہ انہوں نے برماہ عوامی جمہوریہ چین، اریٹیریا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو ایسے ملکوں کے طور پر نامزد کیا ہے جن کے بارے میں اس وجہ سے خاص تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ مذہبی آزادی کی سوچھی سمجھی اور مسلسل قابلِ مذمت خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں یا ان سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔
پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کے لیے وزیرِ خارجہ نے صدارتی کارروائی سے استثنیٰ جاری کیا۔ انہوں نے تعین کیا کہ امریکہ کے اہم قومی مفادات اس استثنیٰ کی ایسی کارروائی کا تقاضہ کرتے ہیں جیسا کہ بین الااقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ میں اجازت دی گئی ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے الجزائر، کوموروز، کیوبا اور نکاراگوا کو ایسی حکومتوں کے طور پر واچ لسٹ میں ڈالا ہے جو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گئے ہیں یا انہیں نظرانداز کیا ہے۔
آخری بات یہ کہ انہوں نے الشباب، بوکو حرام، حیات تحریر الشام ، انصار اللہ (جسے اکثر حوثی بھی کہا جاتا ہے)، آئی ایس آئی ایس، آئی ایس آئی ایس عظیم تر صحارا، آئی ایس آئی ایس مغربی افریقہ، جماعت نصر السلام ولمسلمین اور طالبان کو خاص تشویش والی تنظیمیں قرار دیا۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے انتباہ کیا کہ فی الوقت دنیا میں مذہبی آزادی کو جو چیلنج درپیش ہے اس کا تعلق تظیمی ڈھانچے سے ہے اور ساتھ ہی اس بات سے بھی ان کی جڑیں گہری ہیں۔ ان کا ہر ملک میں وجود ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام ایسے ممالک جو نفرت، عدم رواداری، اور جبرو استبداد کی روش کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہ عالمی بنیاد پر اس کے خلاف مستقل وابستگی کا اظہار کریں۔ یہ صورتِ حال بین الاقوامی برادری کی جانب سے فوری توجہ کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔
امریکہ تمام حکومتوں پر اس بات کے لیے برابر دباوؑ جاری رکھے گا کہ جو بھی زیادتیوں کے ذمہ دار ہیں انہیں جواب دہ ٹھیرایا جائے۔ امریکہ نے بدستور اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ وہ حکومتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مذہبی برادریوں کے ارکان کے ساتھ کام کرتا رہے گا تاکہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی کو فروغ دیا جا سکے اور ایسے افراد اور برادریوں کی حالتِ زار پر توجہ دی جا سکے جنہیں زیادتیوں، ہراسانی اور امتیازی سلوک کا ان کے عقائد کی وجہ سے سامنا ہے یا اس وجہ سے کہ وہ بعض عقائد پر یقین نہیں رکھتے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**