یورپی یونین کے تعاون سے ایران جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی طرف واپسی کو حتمی شکل دینے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان دوحہ میں ہونے والی حالیہ بات چیت مایوس کن رہی۔
ریڈیو این پی آر کے ساتھ ایک انٹرویو میں، امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے ایران اور امریکی وفد کے رہنما رابرٹ میلی نے کہا کہ پارٹی جس نے ہاں نہیں کہا وہ ہے ایران۔"
ایران نے جوہری پابندیاں ہٹانے کے بدلے جامع پلان آف ایکشن پر دستخط کیے تھے۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں اس معاہدے سے دست بردار ہو گئے تھے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ایک سال قبل شروع ہوئے تھے۔ مارچ 2022 میں ایسا لگتا تھا کہ جوہری معاہدے میں واپسی قریب تر ہے۔
مگر بعد میں مذاکرات مہینوں تک التوا کا شکار ہونے لگے۔
خصوصی ایلچی میلی نے کہا کہ ایرانیوں نے دوحہ میں، مزید مطالبات کیے ہیں، میرے خیال میں اور جو بھی اس کو دیکھ رہا ہے اسے یہی محسوس ہوا ہوگا کہ ان مطالبات کا جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ وہ چیزیں تھیں جو وہ ماضی میں چاہتے تھے۔ جبکہ جس بحث کو فی الوقت شروع کرنے کی ضرورت ہے وہ ہمارے اور ایران کے درمیان زیادہ نہیں ہوئی، حالانکہ ہم اس کے لیے تیارتھے، یہ ایران پر منحصرتھا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچتے کہ آیا وہ معاہدے کی تعمیل میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، جب کہ ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں، اور ہم نے اس کا اظہار بھی کیا۔
خصوصی ایلچی میلی نے نوٹ کیا کہ "ایران اب جوہری بم کے لیے ایسا مواد رکھنے کے بہت قریب ہے جو انشقاق کے قابل ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا، "ہمارے علم کے مطابق، انہوں نے ہتھیار بنانے کا اپنا کام دوبارہ شروع نہیں کیا ہے۔
لیکن انہوں نے افزودگی کے میدان میں جو پیشرفت کی ہے۔ وہ ہمارے شراکت داروں اور ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔"
خصوصی ایلچی میلی نے کہا کہ " اس کو حل کرنے کے لیے اب بھی وقت ہے، ابھی بھی وقت باقی ہے کہ وہ اس معاہدے پر واپس آجائیں جس پرکام کیا جا رہا تھا۔ ہمیں امید ہے کہ ایران اس راستے کا انتخاب کرے گا۔ یہ وہ راستہ ہے جس کے لیے ہم بدستورپرعزم ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**