امریکہ اور بھارت کے تعلقات کیسے پروان چڑھے؟

فائل فوٹو

یہ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے یہ درست وقت ہے کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات کیسے ہیں۔

یہ بات کہی رچرڈ ورما نے جو مینجمنٹ اینڈ ریسورس شعبے کے نائب وزیر خارجہ ہیں۔

وہ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کررہے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پیش رفت کرتے ہوئے ہمیں چار عشرے ہو گئے اور یہ ایسی پیش رفت ہے جس کا چند دہائیوں پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

یہ پیش رفت توانائی، سلامتی اور تجارت سمیت کلیدی شعبوں میں دونوں ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث ہوئی۔

درحقیقت یہ صدر بل کلنٹن تھے جنہوں نے امریکہ بھارت اور امریکہ پاکستان پالیسی کو الگ الگ کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ بھارت سول نیوکلیئر ڈیل ممکن ہوئی جو بھارت کو محفوظ اور قابل اعتماد جوہری توانائی فراہم کرنے کے لیے ایک تاریخی اقدام ہے۔

بالآخر سول نیوکلیئر تعاون کی وجہ سے دفاعی تعاون میں نئی پیش رفت ہوئی ۔ نائب وزیر خارجہ ورما نے یہ وضاحت کی ہے۔

نائب وزیر خارجہ ورما کہتے ہیں کہ ’’ہماری فوجیں ایک دوسرے کو سمجھتی ہیں۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ہمیں واقعی انٹرآپریبلٹی یا کنورجنس کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

اب ہم ایک ساتھ مشق اور تربیت کرتے ہیں۔ اب ہم مشترکہ طور پر دنیا کے کچھ جدید ترین نظاموں کو ترقی دے رہے ہیں اور انھیں تیار کر رہے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال کا تعلق انڈو پیسیفک اور اس سے باہر بھی زیادہ امن اور استحکام کو فروغ دینے سے ہے۔

ڈپٹی سیکریٹری ورما نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی کامیابی ملی ہے اور وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مشترکہ کوششیں ہیں۔ تاہم اب بھی کام کرنا باقی ہے۔

لیکن جب زیادہ اخراج کرنے والے تین میں سے دو ملک عالمی سطح پر تعمیری طور پر کام کرتے ہیں تو اس سے دوسرے ممالک اور نجی صنعت کو بھی ایک مضبوط پیغام ملتا ہے کہ اس مسئلے کی اہمیت اور فوری ضرورت کیا ہے تاکہ اس چیلنج کا مقابلہ کی جائے اور اس میں پیش رفت کی جائے۔

نائب سیکریٹری ورما نے کہا کہ امریکہ اوربھارت کے نجی شعبوں کے درمیان اقتصادی اثر یکساں طور پر متاثر کن ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ہماری دو طرفہ تجارت کی شرح میں 2000 سے آج تک 10 گنا اضافہ ہوا ہے۔

ڈپارٹمنٹ آف کامرس کے انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کے مطابق امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارت میں تقریباً 425,000 امریکی ملازمتیں ہیں۔

ذرا پچھلے چند مہینوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ مائیکرون کی جانب سے گجرات میں سیمی کنڈکٹرز بنانے کے لیے 825 ملین ڈالر پلانٹ بنانے کے نئے وعدے ہوئے ہیں۔ ڈویلپمنٹ فائنانس کارپوریشن کے 500 ملین ڈالر کے وعدے بھی سامنے ہیں جو بھارت میں فرسٹ سولر کی جانب سے سولر پینلز کی تعمیر کے لیے کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔

ڈپٹی سیکریٹری ورما نے کہا کہ ’’میرے خیال میں یہ کہنا درست ہے کہ ہم امریکہ اور بھارت تعلقات میں ہم آہنگی کے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ہم کس طرح ایک ساتھ کام کرتے ہیں اس کے لئے ہم آہنگی؛ ہمارے ممالک مشترکہ عالمی خطرات اور مواقع کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں اس پر ہم آہنگی؛ اور اس بات پر اتفاق کہ ہمارے لوگ کیسے رہتے ہیں اور کیوں کر مل کر کام کرتے ہیں۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔