سینٹرل افریقن ری پبلک جسے کار بھی کہتے ہیں دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں میں سے ایک ہے جب کہ یہاں کے کشیدہ ماحول اور لڑائیوں نے حالات کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔
سن 2004 میں خانہ جنگی کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے صدر فرانکیوس بوزی زے کی مخالفت میں لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر یہ بغاوت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ 2013 میں سیلیکا گروپ کی قیادت میں مخالفین نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ان کو معزول کر دیا۔ بالاکا مخالف خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے اور پانچ لاکھ سے زیادہ شہری بے گھر ہوئے جب اس ملک کی کُل آبادی 50 لاکھ سے بھی کم ہے۔
پھر 2016 میں نئے صدر فوز ٹین ار شانزہ ٹاڈے را نے منتخب ہو کر حکومت سنبھالی۔ فروری 2019 میں کار کی حکومت اور 14 مسلح گروپوں کے درمیان امن و مفاہمت کا سیاسی سمجھوتہ ہوا جسے خرطوم معاہدہ کہا گیا۔
مگر اس کے باوجود 2020 کے صدارتی انتخاب تک تشدد کی وارداتیں جاری رہیں۔ انتخاب سے قبل ملک کی اعلیٰ عدالت نے سابق صدر بوزی بو زے کو انتخاب میں حصّہ لینے کے لیے نا اہل قرار دیا۔
جیسا کہ تمام جنگوں میں ہوتا آیا ہے، اس میں بھی سب سے زیادہ عام شہری متاثر ہوئے اور یہی دونوں طرف سے نشانہ بنے۔ اس وقت وسطی افریقی ری پبلک شدید ترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ 2015 کے بعد اس پیمانے کی ہنگامی صورتِ حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد وسیع پیمانے پر تشدد جاری ہے، اس کے سیاسی عدم استحکام آمدورفت کے اہم راستوں میں دھماکہ خیز ہتھیار، سیلابوں اور کووڈ-19 کی عالمی وبا نے حالات کو اور بھی سنگین کر دیا ہے۔
ہنگامی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ کی وجہ سے تقریباً 26 لاکھ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جن لوگوں کو فوری ہنگامی امداد درکار ہے ان کی تعداد 31 لاکھ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
یو ایس ایڈ کی منتظم سمانتھا پاور نے وسطی افریقی ری پبلک کے لیے اضافی 89 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس رقم سے خوراک کی امداد مہیا کی جا سکتی ہے اور اس کے ساتھ کم غذائیت کے شکار بچوں کا علاج معالجہ اور ان کے والدین اور پرورش کرنے والوں کی بھی مدد کی جا سکے گی۔ لوگوں کی آمد و رفت میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے سڑکوں کی مرمت، بے گھر ہونے والوں کی امداد اور جنسی استحصال کا شکار ہونے والوں کا نفسیاتی علاج بھی اسی فنڈ سے کیا جا سکے گا۔
امریکہ وسطی افریقی عوام کی شراکت داری میں ان کے ایک دوسرے سے مربوط بحرانوں کے حل کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے اور تمام امداد دہندگان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ زندگی بچانے والی اپنی امداد میں اضافہ کریں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**