آزادئ صحافت کی حمایت

فائل فوٹو


امریکی وزارتِ خارجہ میں شہریوں کی سلامتی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی نائب وزیرعذرا ضیا نے ایسٹونیا کے شہرٹالین میں ذرائع ابلاغ کی آزادی سے متعلق منعقد ہونے والی ایک حالیہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں صحافیوں کے لیے کام کا ماحول انتہائی مشکل اور خطرنا ک ہو گیا ہے۔

جس خطرے کی نشاندہی نائب وزیر عذرا ضیا کر رہی تھیں، اس کا مظاہرہ 10 فروری کو میکسیکو میں ہوا، جب ایک صحافی ہیبرلوپیز ویسکویز کو جو مقامی حکام کی کرپشن کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کر رہے تھے قتل کر دیا گیا۔

دنیا کے بہت سے ملکوں میں سنسرشپ، ڈرانا دھمکانا، قید میں ڈال دینا اور آزاد صحافیوں کے لیے اداروں کو بند کر دینا جاری ہے۔ میڈیا فریڈم کولیشن کے 21 ملکوں نے حال ہی میں ہانگ کانگ اور عوامی جمہوریہ چین کے حکام کے آزاد میڈیا پر حملوں کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی وزیرِخارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ 2016 سے 2021 کے دوران دنیا کی تقریباً 85 فی صد آبادی نےدیکھا کہ ان کے ملکوں میں صحافت کی آزادی روبہ زوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض اعدادوشمار نہیں۔ یہ خطرے کی زور دار گھنٹی ہے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ لوگوں کو باخبر رکھنے، انہیں اپنی حکومتوں سے جواب دہی کے قابل بنانے اور ان اہم مسائل کو سامنے لانے کے لیے جو عام طور پر لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بنتے، صحافت کی آزادی ناگزیر ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ آزاد پریس کے بغیرکیا ہوتا ہے۔ بد عنوانی کو فروغ ملتا ہے، بد عنوان لیڈر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں اورلوگوں کی آوازیں خاموش کردی جاتی ہیں۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے یہ بھی کہا کہ جمہوریتوں کو آن لائن اور آف لائن صحافتی آزادی کے تحفظ کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے سربراہ کانفرنس برائے جمہوریت کے دوران کئی تجاویز پیش کیں، ان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک نیا پروگرام شامل ہے، جس کے تحت نامہ نگاروں کومدد دی جائے گی جس میں قانونی مدد اور ڈیجیٹل اور جسمانی سیکیورٹی کے لیے تربیت فراہم کرنا شامل ہے۔

ایک اور پروگرام کے تحت صنفی بنیاد پر آن لائن ناروا سلوک اور ہراساں کرنےکی کوششوں کا سدّ باب کیا جائے گا۔

سربراہی اجلاس برائے جمہوریت کے نئے ایکسپورٹ کنٹرول اور انسانی حقوق کے پروگراموں کے ذریعے، امریکہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایک رضاکارانہ ضابطۂ اخلاق تیار کر رہا ہے تاکہ ایکسپورٹ کنٹرول کے ذریعےایسی ٹیکنالوجیز کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے جو صحافیوں کے خلاف ناروا سلوک اور مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ وزیرِخارجہ نے میڈیا کی آزادی کے بارے میں قانونی ماہرین کےاعلیٰ سطحی پینل کی تجاویز کو بھی اجاگر کیا۔ اس پینل نے اس بارے میں تجاویز پیش کی ہیں کہ میڈیا فریڈم کولیشن اور اس کے شراکت داروں کو صحافیوں کو ہدف بنانے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔ اور اس طرح کی پابندیوں کی بھی سفارش کی گئی ہے، جوصحافی جمال خشوگی کے قتل پر امریکہ کی عائد کردہ پابندیوں سے مماثلت رکھتی ہوں۔

وزیر خارجہ بلنکن نے واضح کیا کہ امریکہ دنیا بھر میں اطلاعات تک رسائی کی حمایت اور صحافت کی آزادی کا دفاع جاری رکھے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**