محفوظ انڈو پیسفک کے لیے امریکہ اور پاپوا نیو گنی کی شراکت داری

فائل فوٹو

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پاپوا نیو گنی کے حالیہ دورے پر دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ ’’پاپوا نیو گنی کی دفاعی فورس کی انسانی ہمدردی کی امداد اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔

اس میں طبی دیکھ بھال اور بحرانوں سے متاثر افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ معاہدہ پاپوا نیو گنی اور امریکی افواج کے لیے ہند بحرالکاہل میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی مشترکہ کوششوں کے حصے کے طور پر نئے طریقوں اور مزید مقامات پر ایک ساتھ تربیت کرنا آسان بنا دے گا۔

وزیر خارجہ بلنکن نے اس کے علاوہ پاپوا نیو گنی کے ساتھ غیر قانونی بین الاقوامی بحری سرگرمیوں کی روک تھام کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو متعدد سمندری خطرات سے نمٹنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس میں غیر قانونی، غیر رپورٹ شدہ اور ضوابط سے ہٹ کر کی جانے والی ماہی گیری، منشیات کی اسمگلنگ، تارکینِ وطن کی اسمگلنگ اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حمل کی روک تھام کرنا شامل ہے۔

یہ معاہدہ بحرالکاہل کے جزیرہ خطے میں 11 موجودہ معاہدوں میں اضافہ کرتا ہے اور عالمی سطح پر میری ٹائم گورننس اور نفاذ کو مضبوط کرتا ہے۔

یہ نیا معاہدہ پاپوا نیو گنی کو امریکی کوسٹ گارڈ کے شپ رائیڈر پروگرام میں شرکت کرنے کا اہل بنائے گا جس کا مقصد غیر قانونی سمندری سرگرمیوں کی روک تھام ہے۔

وزیر خارجہ بلنکن نے توجہ دلائی کہ 24 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر محیط پاپوا نیو گنی کا خصوصی اقتصادی زون جنوبی بحرالکاہل کے سب سے بڑے علاقوں میں سے ایک ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ یہ ایک زبردست اقتصادی موقع ہے تاہم اس کی نگرانی اور کنٹرول کی خاطر اس وسیع و عریض سمندری علاقے کی نگرانی کے لیے ایک سنگین چیلنج بھی ہے۔

اس معاہدے کے تحت ہماری افواج ایک دوسرے کے جہازوں پر سوار ہو سکیں گی، تیکنیکی مہارت کا اشتراک کر سکیں گی اور بالآخر ایک ساتھ مل کر سمندروں میں بہتر گشت کر سکیں گی۔

ان معاہدوں کے تحت امریکہ اور پاپوا نیو گنی ان لوگوں کے خلاف ایک مضبوط مشترکہ کارروائی کر سکتے ہیں جو مسلسل تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کے خلاف بھی جو علاقائی یک جہتی اور بحری وسائل کے ذمے دارانہ اور باعزت استعمال کو نظر انداز کرتے ہیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**