تارکینِ وطن بچوں کے پروگرام کی بحالی

فائل فوٹو

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ترکِ وطن سے متعلق ایک بہتر نظام ترتیب دینے کا تہیہ کر رکھا ہے جس سے امریکی اقدار کی عکاسی اور قانون کا نفاذ ہوتا ہو۔

حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں بریفنگ دیتے ہوئے صدر بائیڈن کی خصوصی معاون اور جنوبی سرحد کے لیے رابطہ کار سفیر رابرٹا جیکب سن نے کہا کہ انتظامیہ کے نئے جامع علاقائی پروگرام کے تحت وسطی امریکہ کے بچوں کے لیے کیش اینڈ میڈیکل اسسٹنس پروگرام (سی ایم اے) پھر سے شروع کیا جا رہا ہے۔

اس پروگرام کے تحت 2014 سے 2017 کے درمیان ایل سلواڈور، ہنڈوراس اور گوئٹے مالا سے تعلق رکھنے والے تقریباً پانچ ہزار ایسے بچوں کا جو خطرے سے دوچار تھے، اپنے والدین کے ساتھ بحفاظت ملاپ کرا دیا گیا جوامریکہ میں قانونی طور پر قیام پذیر تھے۔

اب امریکہ نے سی اے ایم پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اس کا پہلا مرحلہ شروع کیا ہے اور اس مقصد کے لیے ان درخواستوں پر دوبارہ کام شروع کیا گیا ہے جن کو اس وقت التوا میں ڈال دیا گیا تھا جب 2017 میں اس پروگرام کو ختم کردیا گیا تھا۔ اب اس کے لیے منصوبے ترتیب دیے جا رہے ہیں کہ اسے وسعت دی دی جائے اور نئی درخواستیں طلب کی جائیں۔ یہ بات انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرنے اور امریکہ میں دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے کی راہ کو وسعت دینے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

تاہم سفیر جیکب سن نے اس بات پر زور دیا کہ اس پیغام کے برعکس جسے اسمگلر پھیلا رہے ہیں، سی اے ایم پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی جنوبی سرحد اب کھول دی گئی ہے۔ اس کے ذریعے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس اعلان اور نہ ہی کسی دوسرے اقدامات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی خاص کر بچے اور ایسا خاندان جس کے ساتھ چھوٹے بچے ہوں، غیر قانونی انداز میں امریکہ میں داخل ہونے کی خاطر، خطرناک سفر اختیار کرنے کا مجاز ہے۔ سرحد کھلی ہوئی نہیں ہے۔ آگے چل کر جب کہ ہم اپنے قوانین کا نفاذ جاری رکھیں گے، ہم ایسے راستے تلاش کرتے رہیں گے جن کے ذریعے علاقے میں ایسے لوگوں کو جنھیں تحغظ درکار ہے قانونی ذرائع مہیا کئے جاسکیں۔ بحرحال یہ ایک طریقہ کار کے تحت ہو گا۔

سفیر جیکب سن نے کہا کہ ترک وطن سے متعلق نئی سوچ کو فروغ دینے کا یہ عمل جاری رہے گا۔

اس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ امریکیوں کے طور پر ہم کون ہیں۔ ہم اپنی پالیسی میں اپنی اقدار کو مقدم خیال کرتے ہیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**