روس کی جانب سے بین الاقوامی ضابطوں کی تحقیر

فائل فوٹو


وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے برلن، جرمنی میں ایک حالیہ تقریر میں کہا کہ یوکرین کی سرحد پر روس کے پیدا کردہ بحران نے ایک بنیادی بات واضح کردی ہے کہ روس سرد جنگ کے بعد کے یورپ کو سرے سے رد کرتا آیا ہے جو حقیقت میں ایک اکائی ہے، آزاد ہے اور پرامن ہے۔

روس نے ہمیشہ سے سمجھوتوں اورمعاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے جن پراس نے دستخط کررکھے ہیں اورجن اصولوں کی وجہ سے عشروں سے امن قائم ہے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ان اصولوں کے تحت کسی ایک ملک کو طاقت کے ذریعے کسی اورملک کی سرحدوں کو تبدیل کرنے کا حق نہیں دیا گیا، کسی اور ملک کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ اپنی پالیسی پر اسے مجبور کرے۔ جن میں یہ پالیسی شامل ہے کہ کس کے ساتھ خود کو منسلک کرے یا کوئی ملک کسی ایسے دائرہ اختیار کو بروئے کار نہیں لا سکتا ہے جس سے غیر ملکی خود مختار پڑوسیوں کو من مانے طور پراپنا زیرنگیں کرلے۔

ان اصولوں کی خلاف ورزی کے لیے بلا روک ٹوک اگرروس کو اجازت دی گئی تو ہم سب زیادہ خطرناک اورعدم استحکام کی شکار دنیا کی جانب لوٹ جائیں گے جب یہ برِاعظم اور یہ شہردوحصوں میں تقسیم تھا اوراس کے درمیان ایسا خطہ قائم تھا جس پر کسی کی بھی ملکیت نہیں تھی اور فوجی پہرہ دیتے تھے جب کہ بھرپور جنگ کا خطرہ ہر ایک کے سر پرمنڈلاتا رہتا تھا۔

روس نے 1975 میں ہلسنکی فائنل ایکٹ پردستخط کیے جس کے تحت دس رہنما اصول عمل میں آئے جن میں آزاد ملکوں کےاقتدار اعلیٰ کی ضمانت دی گئی۔ روس نے ان میں سے ہرایک اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔

روس ویانا دستاویز کا بدستورپابند ہے جو سیاسی اعتبار سے اس پرعملدرآمد کے لیے پابند کرتا ہے اور جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے بارے میں شفافیت اور پیشگی اندازوں میں وسعت پیدا کی جائے جن میں فوجی مشقیں شامل ہیں۔ روس ان معاملات پر اپنے طور پر عمل کرتا ہے۔

بداپست میمورنڈم پردستخط کر کے روس، برطانیہ اورامریکہ نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ یوکرین کی موجودہ سرحدوں،اس کی آزادی اور اقتدارِاعلیٰ کا احترام کریں گے اور اس ملک کے خلاف دھمکیوں یا طاقت کے استعمال سے احتراز کریں گے۔ ظاہر ہے کہ روس نے اس معاہدے کو نظرانداز کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے استفسار کیا کہ اگرروس نے حملہ کر کے یوکرین پر قبضہ کرلیا تو پھراس کے بعد کیا ہوگا؟

اپنے پڑوسیوں کو کٹھ پتلی ریاستوں میں تبدیل کرنے کی روس کی کوششیں، اس کی سرگرمیوں پرکنڑول اور کسی قسم کے بھی جمہوری اندازکوختم کرنے کی کارروائی میں اضافہ ہوجائے گا۔

ایک مرتبہ جب خودمختاری اور حق خود ارادی کی دھجیاں بکھیردی جائیں گی تو آپ ایک ایسی دنیا کی طرف واپس چلے جائیں جہاں وہ اصول جو ہم نے عشروں میں بنائے ہیں ختم ہوجائیں گے ا ور بلا تاخیر سرے سے ہی غائب ہوجائیں گے۔

ایک ملک نے بار بار اپنے وعدوں کی خلاف وزری کی ہے اور ان اصولوں کو نظرانداز کیا ہے جس پر اس نے اتفاق کیا تھا۔ دوسری جانب دوسرے ملکوں نے اس بات کی سخت کوشش کی ہے کہ ہر قدم پر انہیں ساتھ لے کر چلا جائے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ وہ ملک روس ہے۔ یہ دو ملکوں کےدرمیان تنازعے سے بھی بڑی بات ہے۔ یہ روس اورنیٹو سے بھی بڑا معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس میں عالمی نتائج مضمر ہیں اور اس پر عالمی توجہ اور کارروائی درکار ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**