اپریل 2019 میں سوڈان کے صدر عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ سوڈان کے مغربی حصے کے علاقے دارفور کے لوگوں کو وہ انصاف مل جائے گا جس کے ملنے میں عرصے سے تاخیر ہوتی آ رہی تھی۔
سن 2003 میں ہونے والی ایک بغاوت کے خلاف حکومت کی اتحادی جنجاوید ملیشیا نے انتہائی بربریت اور سفاکی سے کارروائی کی اور سوڈانی افواج اور پولیس بھی اس میں ملوث رہیں۔ اس کے نتیجے میں لگ بھگ تین لاکھ لوگ ہلاک اور 27 لاکھ بےگھر ہو گئے۔
دو سال قبل نئی حکومت نے وعدہ کیا کہ دارفور کے متاثرین کو انصاف دینے کے وعدے کو پورا کرے گی۔ تاہم اس وعدے کی تکمیل میں بھی گزشتہ اکتوبر میں فوج کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے سبب تاخیر ہو گئی۔
دریں اثنا اپریل میں دی ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے جنجاوید کے سابق سینئر کمانڈر علی عبد الرحمان کے خلاف مقدمہ شروع کردیا جو علی خوشائب کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں 31 الزامات کا سامنا ہے۔ یہ مقدمہ طویل عرصے سے جاری ہے اور جو لوگ جنجاوید ملیشیا کی بربریت کا شکار ہوئے وہ اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں اور انصاف کے منتظر ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے نائب نمائندے رچرڈ ملز کہتے ہیں کہ عبدآلرحمان کے خلاف
مقدمے میں اصل چیز ان درجنوں لوگوں کی گواہی ہے جن میں سے بہت سے اب بھی دارفور میں رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی ماہ کے دوران ان گواہوں نے جن میں سے بہت سے ایسے ہیں جو تشدد میں بچ گئے تھے۔ اپنی کہانی اپنی زبان میں سنانے کے لیے دی ہیگ تک کا ہزاروں میل کا سفر کیا۔
سفیر ملز نے کہا کہ دارفور میں مظالم میں ملوث سابق سوڈانی صدرعمرالبشیر اور دوسروں پر بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے اور وہ مقدمے کے منتظر ہیں۔
سوڈانی حکام نے وکیل سرکار اور ان کے عملے کے دوروں کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں اور دارفور میں ان کی تحقیقات میں معاونت فراہم کرنے کے لیے بعض دوسرے حالیہ اقدامات کیے ہیں۔ جو بہت اچھی خبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ دارفور کے لوگوں کو انصاف دلانے کے واسطے اپنی داخلی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ساتھ تعاون کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ سوڈانی حکام کوانٹرنیشنل کریمنل کورٹ یا آئ سی سی کی ٹیموں کو ملک کے اندر سفر کی اجازت دینے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ شواہد۔ دوسری معلومات اور مدد کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ جس میں اہم گواہوں تک کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی اور آئی سی سی کی زیادہ موجودگی کے لیے سہولت فراہم کرنا بھی شامل ہو۔
سفیر ملز مے کہا کہ آئی سی سی نے جن لوگوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں آنا چاہیے۔ اور مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے منتقل کیا جانا چاہیے۔ امریکہ احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کی آئی سی سی کی کوششوں کی حمایت میں سوڈانی لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**