صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی اولین اقدام یہ کیا کہ انہوں نے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے حکم نامے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے پر جن ملکوں نے دستخط کیے ہیں، ان سے کہا گیا ہے کہ وہ گیس کے اپنے اخراج میں کٹوتی کریں تاکہ عالمی اوسط درجۂ حرات میں اضافے کو دو درجہ سیلسیس سے خاصا نیچے رکھا جائے اور اس بات کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ اسے ایک اعشاریہ پانچ سیلسیس تک محدود کر دیا جائے۔
تاہم ایک حالیہ تقریر میں وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ پیرس معاہدے میں چھ برس پہلے جو اہداف مقرر کیے گئے تھے انہیں حاصل کرنے میں دنیا پہلے ہی ناکام رہی ہے۔
ان کے بقول ہم جانتے ہیں کہ وہ اہداف شروع ہی سے حاصل نہیں کیے جا سکے۔ آج کے دور میں سائنس بالکل واضح ہے۔ تباہی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا میں درجۂ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسیس سے کم رکھیں۔
امریکہ جو دنیا میں گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اس بحران سے نمٹنے میں خاص کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن وہ کافی نہیں ہو گا۔ اگر امریکہ فوری طور پر گیس کے اخراج کو صفر کی سطح پر لے آئے پھر بھی اس 85 فی صد اخراج سے ہم نبرد آزما نہیں ہو سکتے جس کے لیے دنیا کے بقیہ ممالک ذمے دار ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ اگر اس سے کم پر بات کی تو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیکیورٹی چیلنج کا سامنا کریں۔ موسمیاتی تبدیلی امکانی طور پر صورتِ حال کو بدتر کر دے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی موجودہ تنازعات میں شدت پیدا کر دیتی ہے اور نئے تنازعات کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، خاص کر ان ملکوں میں جہاں کمزور حکومتیں قائم ہیں اور جہاں وسائل کی کمی ہے۔
ان 20 ملکوں میں سے جن کے بارے میں ریڈ کراس کا خیال ہے کہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، 12 ممالک ایسے ہیں جنہیں پہلے ہی مسلح تصادم کا سامنا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نئے مقامات پر تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ مثلاً قطب شمالی کے علاقے میں جہاں روس نئے خطۂ زمین پر کنٹرول کے لیے اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے۔ وہ قطب شمالی میں اڈوں کو جدید شکل دے رہا ہے اور نئے اڈے تعمیر کر رہا ہے، جن میں سے ایک الاسکا سے ٹھیک تین سو میل پرے ہے۔ چین بھی قطب شمالی کے علاقے میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی نقل مکانی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ 2020 میں بحرِ اوقیانوس میں 13 طوفان آئے جو اتنی بڑی تعداد میں کبھی نہیں آئے تھے۔ وسطی امریکہ خاص طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ جب لوگ تباہ کاریوں کا سامنا کرتے ہیں، خاص کر وہ جنہیں پہلے ہی سے غربت اور عدم سلامتی درپیش ہوتی ہے تو یہ گویا آخری تنکا ثابت ہوسکتا ہے اور لوگ رہائش کے لیے بہتر مقامات کی تلاش میں اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ بائیڈن۔ہیرس انتظامیہ موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات کرے گی جو تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔ ہماری حکومت پورے ملک میں پہلے ہی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارا مستقبل ان فیصلوں سے وابستہ ہے جو ہم آج کریں گے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**