انسانی اسمگلنگ کی روک تھام

فائل فوٹو

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ انسانوں کی تجارت انسانی حقوق کی توہین ہے اور یہ انسانی وقار کی تذلیل کا باعث ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ معاشروں اور اقتصادیات کو عدم استحکام کا شکار کرتی ہے۔ لہذا ہمارے لیے لازم ہے کہ جہاں کہیں بھی انسانوں کی تجارت ہوتی ہو اسے روکنے کے لیے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ایک عالمی برادری کے طور پر ہم جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ کریں۔

محنت کی بین الاقوامی تنظیم کا اندازہ ہے کہ تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ دنیا بھر میں انسانی تجارت کا شکار ہیں۔ امریکہ، انسانوں کی تجارت کی دو شکلوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ایک تو بیگار اور دوسرا جنسی استحصال۔ بہت سوں کو زبردستی تجارتی پیمانے پر جنسی کاروبار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے زبردستی کارخانوں، کانوں، یا کھیت کھلیانوں میں کام کرنے کے لیے مجبور کر دیے جاتے ہیں یا مسلح گروپ کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔

یکم جولائی کو امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے انسانوں کی تجارت کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ یہ دنیا کی نہایت جامع رپورٹ ہے جو معروضی انداز میں انسانوں کی تجارت کے خلاف حکومت کی کوششوں کا تجزیہ کرتی ہے جس میں امریکہ اور پوری دنیا شامل ہے۔ انسانوں کی تجارت کرنے والے اپنا طریقۂ کار مستقل بدلتے رہتے ہیں اور امریکہ سمیت ہر ملک کو چاہیے کہ وہ لازمی طور پر خود اپنی حکمتِ عملی میں بھی ردو بدل کرتے رہیں تاکہ ان کا توڑ کر سکیں۔

کوویڈ نائنٹین کی عالمگیر وبا کا بھی انسانوں کی تجارت پر اثر پڑا ہے۔ انسانوں کی تجارت کرنے والوں نے اپنے کاروبار کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس موقع کو استعمال کیا ہے۔ ایسے افراد جو اس عالمگیر وبا کی وجہ سے شدید معاشی بدحالی کا شکار ہو گئے تھے۔ انہیں استحصال کا شدید خطرہ درپیش تھا اور جب کہ زیادہ سے زیادہ لوگ تعلیم اور کام کے لیے گھنٹوں آن لائن مصروف تھے، انسانوں کے تاجر ممکنہ شکار کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے تھے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ اس سال رپورٹ میں ریاست کی سرپرستی میں انسانوں کی تجارت پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے 11 ملکوں کے بارے میں معلومات جمع کیں جہاں حکومت خود انسانی تجارت میں ملوث تھی۔ مثال کے طور پر سرکاری یا معیشت کے شعبوں میں لوگوں سے بیگار کے ذریعے جہاں کہیں بھی حکومت نے چاہا ایسا کیا۔

اینٹںی بلنکن کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کھلے طور پر سوچے سمجھے انداز میں عدم مساوات اور انسانوں کی تجارت کے درمیان تعلق کا اعتراف کیا گیا۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے امریکہ سمیت بہت سے ملکوں کو نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے. ایسا اس لیے ہے کہ انسانوں کے تاجر غریب برادریوں اور ایسے افراد یا ان لوگوں کو ہدف بناتے ہیں جن کے بارے میں ایسا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ ان کی اس بات پر یقین کیا جائے گا کہ انہیں نشانہ بنا یا جا رہا ہے یا وہ زیادتی کا ہدف بن رہے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول اگر ہم انسانوں کی تجارت کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم سوچے سمجھے انداز میں روا رکھی جانے والی نسل پرستی، جنسی استحصال اور امتیازی کارروائیوں کی دوسری شکلوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بھی کام کریں اور ہر ایک انداز سے زیادہ منصفانہ معاشرہ قائم کریں۔

بلنکن بولے کہ ہماری دنیا کو جو نہایت اہم چیلنج درپیش ہیں انہیں کوئی ایک ملک تنہا حل نہیں کر سکتا۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مل جل کر کام کریں، معلومات کا تبادلہ کریں اور ایک دوسرے کو جوابدہ بنائیں۔ اسی طرح ہم ایک ایسی دنیا تعمیر سکیں گے جہاں انسانی تجارت کے ذریعے کسی کا استحصال نہ کیا جا سکے اور ہر ایک فرد سلامتی اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**