ہانگ کانگ میں نئے سیکیورٹی قانون اور دوسرے ضابطوں کے تحت جمہوریت کی وکالت کرنے والوں کی گرفتاریوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ہر نئی گرفتاری کے ساتھ چینی کمیونسٹ پارٹی، ہانگ کانگ کی خودمختاری کو مزید ختم کرتی جا رہی ہے اور انسانی حقوق کے احترام کو ملیا میٹ کر رہی ہے۔
ابھی حال ہی میں حکام نے ہانگ کانگ میں آٹھ ممتاز جمہوریت نواز سیاست دانوں کو گرفتار کرلیا جن میں قانون ساز کونسل کے پانچ ارکان بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق انھیں آٹھ مئی کی اس متنازع میٹنگ کی تفتیش کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا جو اس بارے میں تھی کہ قانون ساز ادارے میں ایک کلیدی کمیٹی کا کنٹرول کس کے پاس ہونا چاہیے۔
ایک بیان میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ واقعے کے چھ مہینے بعد ان قانون سازوں کی گرفتاری، سیاسی مقاصد کے لیے قانون کے نفاذ کا کھلم کھلا غلط استعمال ہے۔ جمہوریت نواز نمائندوں کو ہانگ کانگ کی حکومت کی جانب سے ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے اور اختلاف کا گلا گھونٹنے کی کارروائیاں مطلق العنان چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اس کے جاری ساز باز کی کھلی مثالیں ہیں۔
تئیس اکتوبر کو ہانگ کانگ کی آزادی کی وکالت کرنے والے طلبہ کے ایک سابق گروپ کے تین ارکان کو قومی سلامتی کے قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ان پر شبہ تھا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسا مواد شائع کر رہے تھے جن میں علیحدگی کے لیے اکسایا جا رہا تھا۔ ان تین افراد میں سابق طالبِ علم لیڈر ٹونی چنگ اور سابق ارکان ویلیم چین اور یانی ہو شامل ہیں۔
امریکہ ان کی گرفتاری اور حراست کی سخت مذمت کرتا ہے اور ہانگ کانگ کے حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان لوگوں کو فوری طور پر رہا کردے جو اب بھی زیرِ حراست ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین نے چین اور برطانیہ کے درمیان 1984 کے مشترکہ اعلان کے تحت بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے جب کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اور ہانگ کانگ میں اس کے گماشتے ہانگ کانگ کی اس خودمختاری کو کہ جس کا وعدہ کیا گیا تھا، کچل رہے ہیں اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کے احترام کو پامال کیا جارہا ہے جن میں پر امن اجتماع اور اظہارِ رائے کی آزادیوں کے حقوق شامل ہیں۔ ایسے میں امریکہ ہانگ کانگ کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**