ایران میں توہینِ مذہب کے جرم میں سزائے موت پر امریکہ کی مذمت

فائل فوٹو

امریکہ نے ایران میں توہینِ مذہب کے الزام پر دو افراد کو دی جانے والی سزائے موت کی مذمت کی ہے۔ یوسف مہرداد اور صدر اللہ فاضلی زرے کو آٹھ مئی کو وسطی ایران کی اراک جیل میں پھانسی دی گئی۔

انہیں مئی 2020 میں ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر ’’توہم پرستی اور مذہب پر تنقید‘‘ (کے نام سے) چینل چلانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ایرانی عدلیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی میزان کے مطابق انہیں’’پیغمبر کی توہین اور مذہبی اور اسلامی مقدس (عقائد) کی توہین کرنے کے جرم پر سزا سنائی گئی ہے۔

امریکہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’ پھانسی کا یہ تازہ ترین واقعہ ایرانی حکومت کے رجحان کی یاد دہانی کراتا ہے جس کے تحت ایرانی عوام کے انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ایران سمیت دنیا بھر میں توہینِِ مذہب کے تمام قوانین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ بین الاقوامی انسانی حقوق کی متعدد این جی اوز (غیر سرکاری تنظیمیں ) اور میڈیا رپورٹنگ کے مطابق (ایرانی) حکومت نے اختلاف کرنے والوں، سیاسی اصلاح کاروں، اور پرامن مظاہرین کو’خدا مخالف دشمنی‘اور ’اسلام مخالف پروپیگنڈا کے الزامات میں مجرم ٹھہرایا اور انہیں سزائے موت دی۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے ایران میں 2023 میں سزائے موت دیے جانے کی خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی تعداد پر نو مئی کو مایوسی کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال اب تک اوسطاً ہر ہفتے دس زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار گیا ہے اور اسے دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں سے ایی بنا دیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے مہرداد اور زارے کی پھانسی کے بارے میں بات کرنے کے بعدان پابندیوں کی طرف اشارہ کیا جو امریکہ نے انسانی حقوق کےحوالے سے کئے جانے والے مظالم کے باعث ایرانی حکام اور اداروں پر عائد کی ہیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ’’امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایرانی حکومت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے مناسب کارروائی کرتا رہے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**