عراق اور شام میں امریکہ اپنی افواج کا تحفظ کرے گا

فائل فوٹو

عراق میں امریکہ نے سرکاری طور پر اپنے جنگی مشن کے کردار میں تبدیلی کرلی ہے اوراب اس کی حیثیت مشاورت اورعراقی سیکیورٹی فورسز کی حمایت کی ہو گئی ہے۔ اس وقت عراق میں تقریباً ڈھائی ہزارامریکی فوجی موجود ہیں جب کہ شام میں ان کی تعداد اندازاً ایک ہزار ہے۔ یہ افواج امریکہ کی قیادت میں داعش کے خلاف اتحاد کی جاری لڑائی کا حصہ ہیں جسے عزم صمیم کے آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔

علاقے میں امریکہ کی افواج کو برابر خطرے کا سامنا رہتا ہے اور اس کا تعلق محض داعش سے نہیں ہے۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں عراق اور شام میں امریکی افواج کی رہائش کے لیے مخصوص اڈوں کو کئی ایک حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔

ان حملوں میں دو ڈرون حملے شامل تھے جو گولا بارود سے لدے ہوئے تھے اور جن کا نشانہ مغربی عراق میں عین الاسد کے فضائی اڈے کے قریب امریکی افواج تھیں۔ اڈے پر موجود دفاعی آلات نے دونوں ڈرونز کو تباہ کر دیا۔

اس کے علاوہ گرین ویلج نامی مقام پر شمالی مشرقی شام میں واقع شامی ڈیموکرٹیک فورسز نے ایک اڈے پر جہاں تھوڑی سی تعداد میں امریکی اور اتحادی افواج موجود ہیں، سویلین ڈھانچے کی مدد سے بلواستہ حملے کیے۔

یہ حملے اس امریکی حملے کی دوسری برسی کے دنوں کے آس پاس ہوئے جس میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی مارے گئے تھے جو پاسداران انقلاب یعنی قدس فورس کے سربراہ تھے اور ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور ان کے زخمی ہونے کے ذمہ دار تھے۔

امریکہ نے 2019 میں قدس فورس کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

ایک حالیہ پریس بریفنگ میں محکمۂ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی فوجیوں پر حالیہ حملے اسی نوعیت کے ہیں جو ہم نے ایران کی پشت پناہی والی ملیشیاز کی جانب سے دیکھے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ایسے ہی گروپ ان حملوں کے ذمہ دار ہیں۔

ترجمان کربی اورکمبائن جوائنٹ ٹاسک فورس یعنی عزم صمیم نامی آپریشن کے کمانڈر میجرجنرل جان برینن نے یہ واضح کیا کہ امریکی فوج اپنے دفاع میں کارروائی کرسکتی ہے اورایسا ہی کرے گی۔ میجر جنرل برینن نے کہا کہ اتحاد کسی بھی خطرے کے خلاف اپنے اور اپنی شراکت دار افواج کے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اوران افواج کے تحفظ کی خاطر اپنے اختیار میں جو کچھ ہوا وہ بدستور کیا جائے گا۔ عراق اور شام میں ہماری افواج کے خلاف خطرات سے ہم برابرآگاہ ہیں جو ایران کی پشت پناہی رکھنے والے ملیشیا گروپوں سے درپیش ہیں۔

یہ حملے ہمارے اتحاد کے اس مشترکہ مشن سے توجہ ہٹانے کی ایک خطرناک کوشش ہیں جس کا تعلق داعش کو مستقل شکست دینے کے لیے شراکت داروں کے درمیان مشاورت ، معاونت اور اہلیت سے ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**