سوڈان کے دارفور علاقے میں جنجاوید ملیشیا نے جولائی 2007 میں لوگوں کو قتل کیا اور ان پر ظلم کیا۔
اقوامِ متحدہ نے بربریت کو روکنے اور خطے میں استحکام لانے کی کوشش میں وہاں امن مشن یو این اے ایم آئی ڈی کو تعینات کیا۔ 13 سال بعد مشن کو واپس بلا لیا گیا جس کے نتیجے میں تحفظ کے معاملے میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق امن مشن کی واپسی کے صرف ایک ماہ بعد دارفور میں تشدد خاص طور پر جنسی تشدد میں اضافہ ہوا۔
تین سال بعد دارفور کے لیے اقوامِ متحدہ کا ایک اور مشن یو این آئی ٹی اے ایم ایس واپس ہوا تو اس کے بعد جنسی تشدد کی خبریں سامنے آئیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل دونوں صورتوں میں سوڈانی خواتین کے نقطہ نظر اور ضروریات پر غور کرنے میں ناکام رہی۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں حال ہی میں ایک بریفنگ پیش کی گئی جس کے مطابق سوڈان کی سنگین صورتِ حال کے تناظر میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے خاتمے اور اس کی منتقلی سے کچھ بنیادی سبق ملتا ہے کہ ایسے حالات میں خواتین کی زندگیاں خطرے میں ہیں جیسے جمہوریہ کانگو، عراق، صومالیہ اور ہیٹی کی مثالیں سامنے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل میں امریکی نمائندہ لیزا کارٹی نے کہا کہ ’’مشن کی منتقلی کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہوئے پالیسیوں اور پروگراموں میں صنفی جوابی نقطہ نظرپر توجہ مرکوز کرنا اور خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر سرِفہرست رکھنا ضروری ہے۔
امن مشن کی منتقلی کے عمل کے دوران اور اس کی واپسی کے بعد خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تین ایسے مسائل ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
لیزا کارٹی کہتی ہیں کہ ’’سب سے پہلے سول سوسائٹی کی شمولیت کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ مقامی خواتین کی زیرقیادت اور زندہ بچ جانے والے گروپوں سے باقاعدہ مشاورت کی جانی چاہیے اور ان کے خیالات کو اقوامِ متحدہ اور میزبان حکومتوں کے ذریعے منتقلی کی منصوبہ بندی میں بامعنی طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔
سول سوسائٹی کے کرتا دھرتا افراد ہمارے پہلے شراکت دار ہونے چاہئیں جو مشن کی واپسی کے ساتھ ضروری عوامل یعنی ڈبلیو پی ایس (خواتین، امن اور سلامتی) جیسی سرگرمیوں کو انجام دینے کی کوشش کریں۔
سفیر کارٹی نے کہا دوسری ضروری بات یہ ہے کہ تبدیلیوں کے دوران رہنماؤں کو ’’صنفی بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے سلامتی کی صورتِ حال پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لینا چاہیے۔
آب و ہوا کے شعبے میں کام کرنے والے مشیروں اور مقامی تنظیموں کے ساتھ سوچ سمجھ کر کی جانے والی منصوبہ بندی اور شراکت داری ایسے عوامل ہیں جو مشن کی منتقلی جیسے اہم لمحات کے دوران مقامی ملکیت اور قیام امن کی کوششوں کی حمایت کر سکتے ہیں۔
سفیر کارٹی کہتی ہیں کہ ’’تیسری بات یہ کہ مشنز، میزبان حکومتوں اور بین الاقوامی برادری کومل کر صنفی بنیاد پر تشدد کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس میں تنازعات سے متعلق جنسی تشددبھی شامل ہے۔ جیسے ہی مشن روانہ ہوں تو متاثرین اور بچ جانے والوں کی مدد کی جائے۔
سفیر کارٹی نے کہا کہ ’’ہمیں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو فعال طور پر شامل کرنا چاہیے اور ان کو تقویت دینی چاہیے خاص طور پر جن کی قیادت خواتین اور لڑکیاں کرتی ہیں۔
ہمیں امن اور سلامتی پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ ہمیں تنازعات سے متعلق جنسی تشدد کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ تشدد کی کوئی بھی سطح قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں جن کا ہمیں اہم تبدیلی کے تناظر میں مل کر احساس کرنا چاہیے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔