ایران میں امریکی شہریوں کی غیر قانونی حراست

ایران میں ہونے والے ایک حکومت مخالف احتجاج کے دوران مظاہرین ایرانی پرچم لہرا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

ایران ان ملکوں میں شامل ہے جو بدقسمتی سے غیر ملکی شہریوں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کو حراست میں لے کر سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ساتھ اس وقت متعدد امریکی شہری بھی ایران میں غیر منصفانہ یا غلط طور پر حراست میں ہیں۔ ان میں سے ایک یونیسیف کے سابق عہدیدار باقر نمازی ہیں۔

ایرانی حکومت نے 84 سالہ ایرانی امریکی کو جو بیمار ہیں، گزشتہ برس جیل سے رہا کیا تھا کیوں کہ انھیں صحت کے شدید مسائل کا سامنا تھا۔ لیکن ان پر ملک چھوڑنے کی پابندی لگادی گئی ہے۔

باقر نمازی کو پانچ سال پہلے اس وقت گرفتار کرلیا گیا تھا جب وہ اپنے بیٹے سیامک سے ملنے ایران گئے تھے۔ سیامک ایک تاجر ہیں جنھیں غیر منصفانہ طور پر 2015 میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔

باپ اور بیٹے دونوں پر یہ غلط الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے ایک دشمن طاقت سے تعاون کیا ہے۔

باقر نمازی کی گرفتاری کے پانچ سال پورے ہونے پر یرغمالیوں کے امور کے لیے خصوصی صدارتی ایلچی روجر کارسٹینز نے ٹوئٹ کیا کہ آج ایک اور غم زدہ دن ہے۔ نمازی خاندان کے دونوں افراد کو رہا کریں اس لیے کہ یہ امریکی خاندان بدستور جدائی کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ سال سے ایران نے امریکی شہری باقر نمازی کو روک رکھا ہے جب کہ ان کا بیٹا سیامک غیر قانونی طور پر ایون کے جیل خانے میں بند ہے۔ ایران پر لازم ہے کہ انھیں آزادی کے ساتھ باہم ملاپ کی اجازت دی جائے۔

ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے ایران میں امریکی شہریوں کی غیر منصفانہ حراست کو مکمل طور پر اور کھلم کھلا زیادتی قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ بائیڈن ۔ ہیرس انتظامیہ نے اس مسئلے پر ایرانیوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور انہیں ایک سخت پیغام دے رہی ہے۔

سلیون نے کہا کہ ہم طویل عرصے تک ایک اسی صورتِ حال کو قبول نہیں کریں گے جس میں ایران غیر منصفانہ اور غیر قانونی طور پر امریکیوں کو اپنی قید میں رکھے۔ اس انتظامیہ کی یہ ایک اہم ترجیح ہوگی کہ ان امریکیوں کو بحفاظت وطن واپس لایا جائے۔

ایران وہ واحد ملک نہیں ہے جس نے غیر منصفانہ طور سے سیاسی فائدے کی خاطر غیر ملکیوں کو حراست میں لے رکھا ہے اور صرف امریکی ہی اس کا شکار نہیں ہیں۔ حال ہی میں امریکہ سمیت 58 ملکوں نے کینیڈا کی قیادت میں ایک اعلان کی توثیق کی ہے جس میں ریاستوں کے تعلقات کے ضمن میں بلا جواز گرفتاری کی مذمت کی گئی ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ من مانی حراست کے طور طریقوں کی انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین میں پہلے ہی ممانعت ہے۔ تاہم بعض اب بھی ایسا کرتے ہیں اور ہمیں ایک عالمی برداری کے طور پر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہر ایسی حکومت کو جو من مانے انداز میں غیر ملکی شہریوں کو حراست میں لیتی ہے اور انھیں دباو ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہے، یہ پیغام دیا جائے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسے براشت نہیں کیا جائے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**