یوکرین پر روس کا حملہ انسانی تباہی کا سبب بنا ہے۔ یوکرین کے 77 لاکھ سے زیادہ لوگ یورپ کے 40 ملکوں میں پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہے ہیں۔
ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ خود اپنے وطن میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ یہ اس ملک کی کل آبادی کا کوئی ایک تہائی حصہ ہے جو اپنے گھروں کو نہیں جا سکتا۔
چھان پھٹک کی کارروائیوں میں جسے”فلٹریشن آپریشن کہا جاتا ہے، لاکھوں مزید لوگوں کو زبردستی روس بھیج دیا گیا ہے۔
یوکرین کی کوئی نصف آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور سرد موسم سر پر منڈلا رہا ہے۔
روسی افواج نئے سرے سے شہری انفرا اسٹرکچر اور انسانی انفرا اسٹرکچر پردرندگی سے حملے کر کے حالات کو مزید بد تر کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ یوکرین کے لوگوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے چار اعشاریہ تین ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
فروری سے اب تک امریکہ نے خوراک، نقد امداد، پانی، صفائی، صحت کی دیکھ بھال، تحفظ اور دیگر اہم امداد کی مد میں ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ کی انسانی مدد فراہم کی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں خصوصی سیاسی امور کے سینئر مشیر جیفری ڈی لارینٹس نے کہا ہے کہ ہم ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی مدد کریں کیوں کہ ہم یوکرین کے عوام کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔
فروری میں اپنے بھرپور حملے کے آغاز سے ہی روس نے سلامتی کونسل کی توہین کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور یہ سلسلہ ثبوتوں کے ساتھ جاری ہے۔
اگست سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر دو ہزار دو سو اکتیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایران نے بغیر ہوا باز چلنے والی فضائی گاڑیاں یا یو اے ویز روس منتقل کیں۔
یہ ایرانی ساختہ گاڑیاں بعد میں یوکرینی شہریوں اور سویلین انفرا اسٹرکچر کے خلاف متعدد حملوں میں استعمال ہوئیں۔
یوکرین میں دریافت ہونے والی ان گاڑیوں کی بہ آسانی قابل شناخت باقیات کے علاوہ ان کے یوکرین کے خلاف استعمال کیے جانے کی تصاویر، ویڈیوز اور دوسری اہم دستاویزات بھی دستیاب ہیں۔
سفیر ڈی لارینٹس نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کسی بھی خلاف ورزی کی تحقیقات کرے۔
اس جنگ کے اہم ذیلی اثر ات میں سے ایک بڑے پیمانے کا غذائی عدم تحفظ بھی ہے۔
سفیر لارینٹس نے زور دیا کہ ہمیں بحیرہ اسود کے راستے غلے کی ترسیل کی کوششوں کو جسے بلیک سی گرین انیشیٹو کہا جاتا ہے، آگے بڑھانا چاہیے۔
اس کی تجدید کے لیے کام کرنا چاہیے اور انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت چار سو سے زیادہ بحری جہاز نو اعشاریہ آٹھ ملین میٹرک ٹن غلہ اور دوسری غذائی اجناس لے کر یوکرین کی بندرگاہوں سے روانہ ہوئے۔ جس سے اقوامِ متحدہ کے بقول منڈیوں کو پرسکون کرنے اور خوراک کی قیمتوں میں افراط زر کو محدود کرنے میں مدد ملی ہے۔
سفیر ڈی لارینٹس نے سلامتی کونسل کے تمام ارکان پر زور دیا کہ وہ یوکرین پر روس کی جنگ کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر خواتین کی اہمیت ہے تو وہ روس پر اپنی بندوقیں خاموش کرنے کے لیے زور دیں۔
اگر بچوں کی اہمیت ہے تو وہ روس سے اپنی افواج واپس بلانے کو کہیں۔ اگر اقوامِ متحدہ کے منشور کی اہمیت ہے تو روس سے یوکرین کی خود مختاری، علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی کا احترام کرنے کا مطالبہ کریں۔سفارت کاری کے مبہم مطالبے صرف روس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ مزید ظلم اور زیادتیوں کا ارتکاب کرتا رہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**