Accessibility links

Breaking News

مختلف ملکوں میں غذائی قلت انسانی المیہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پوری دنیا میں اس سال خوراک کی فراہمی عدم تحفظ کا شکار سب سے زیادہ اور ریکارڈ مقدار میں ہو گی۔ اقوامِ متحدہ کی اقتصادیات اور سوشل کونسل میں امریکی نمائندہ لیزا کارٹے کا کہنا ہے کہ ان مصائب کی ایک بڑی وجہ تنازعات ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ زیادہ سے زیادہ جنگ آزما بین الاقوامی سطح پر کھیتوں کو تباہ کر رہے ہیں یا ان کی تجارت کے راستوں کو بند کر رہے ہیں ۔ ان کا واضح مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو بھوکا مارا جائے۔

سفیر کارٹے نے کہا کہ روس یہی حربے یوکرین کی جنگ میں آزما رہا ہےاور اس کے اثرات دنیا کے ان حصّوں میں خاص طور سے نظر آ رہے ہیں جو پہلے ہی خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ سفیر کارٹے نے کہا کہ یوکرین گندم کی برآمد کے سلسلے میں دنیا کا پانچواں بڑا ملک اور سورج مکھی تیل کی برامد کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

روس نے روزمرّہ استعمال کے شہری انفرا سٹرکچرپر بمباری کر کے ان کو تباہ کر دیا ہے، یوکرین کی زمین پر بارودی سرنگیں بچھا دیں اور متعدد بار یوکرین میں گندم کے ذخائر کو تباہ و برباد کیا ہے جن میں سے اب تک چھ ذخیروں کو شمار کیا جا چکا ہے۔ روس نے یوکرین کی بندگاہوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے، جہاں سے دنیا کے ضرورت مند ملکوں کو گندم برامد کی جاتی تھی۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ روس کی جنگ خوراک کے نظام کو مقامی سطح سے لے عالمی سطح تک تباہ کرنے کے درپے ہے۔ اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ دنیا کے وہ علاقے جو پہلے ہی خوراک کی قلت کا شکار ہیں اور اب ہولناک قحط، بھوک کا شکار ہوں گےاور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔

سفیر کارٹے نے مزید کہا کہ یمن میں جن لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد جون تک پانچ گنا بڑھ جائے گی۔ یہ اندازہ اس وقت کا لگایا گیا تھا جب روس کی جنگ نے خوراک کی قیمتوں پر اثر انداز ہونا نہیں شروع کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایتھوپیا میں 90 لاکھ سے زیادہ لوگ خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ٹگرے میں 90 فی صد لوگوں کو امداد کی ضرورت ہے۔

جنوبی سوڈان میں تنازعات کی وجہ سے پچھلے پانچ برسوں میں دو بار قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ تجزیہ کار انتباہ کر رہے ہیں اس سال یعنی 2022 میں ایک اور قحط سالی کا امکان ہے۔ اسی طرح شام میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔

سفیر کارٹے نے کہا کہ اس کے باوجود یہ بحران ناگزیر نہیں ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر پہلے سے پیش بندی کے طور پر اقدامات اٹھا لیے جائیں تو قحط سالی کو روکا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے حصے کے طور پر امریکہ یو ایس ایڈ اور"فیڈ دی فیوچر" پرگرام کے تحت زندگی بچانے والی امداد جاری رکھے گا۔ ہم بدستور دنیا کے واحد سب سے بڑے ملک کے طور اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے جو ورلڈ فوڈ پروگرام اور خوراک و زراعت کی عالمی تنظیم کو سب زیادہ امداد دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگرہم پیشگی اقدامات اٹھائیں تواس پہلے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں، ہم زندگیاں بچا سکتے ہیں۔ آج کے دور میں قحط سالی کا کو جواز نہیں بنتا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG