نومبر امریکہ اور چین کے تعلقات کے لیے ایک اہم مہینہ تھا۔ چودہ نومبر کو امریکی صدر جو بائیڈن نے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کی۔
صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر شی سے یہ اُن کی پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔
صدر بائیڈن نے ملاقات کے دوران وضاحت کی کہ امریکہ چین کے ساتھ بھرپور مقابلہ کرتا رہے گا۔ اُنہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس مقابلے کو تنازع کی طرف نہیں جانا چاہیے۔
صدر بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ اور چین کو مواصلات کی کھلی لائنوں کو برقرار رکھنا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں نے مشترکہ مفاد کے شعبوں پر تعمیری کوشوں کو گہرا کرنے کے لیے اہم سینئر حکما کو بااختیار بنانے پر اتفاق کیا۔
اس کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان اعلٰی سطحی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ہر ملاقات میں امریکہ حکام نے امریکہ اور چین کے درمیان رابطے کی ضرورت پر زور دیا۔
نومبر میں نائب صدر کاملا ہیرس نے بنکاک میں ایشیا پیسفک اکناموک کوآپریشن اجلاس کے دوران صدر شی سے مختصر ملاقات کی۔
نومبر میں ہی امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی نے چینی وزیرِ تجارت سے ملاقات کی۔
کچھ روز بعد 22 نومبر کو امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے چین کے وزیر برائے قومی دفاع سے ملاقات کی۔
کمبوڈیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقع پر پینٹاگان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے خطرے کو کم کرنے اور آپریشنل سیفٹی کو بڑھانے کے لیے ٹھوس بات چیت کی اہمیت پر زور دیا۔
سیکریٹری آسٹن نے انڈو پیسفک خطے میں پی ایل اے کے طیاروں کے بڑھتے ہوئے خطرناک رویے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جس سے حادثے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
سیکریٹری آسٹن نے امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت کے ذمے دارانہ انتظام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اب نئے سال میں چین کا دورہ کرنے کا منصبہ بنایا ہے۔ اُنہوں نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ عالمی رہنما ہم سے تعلقات کو ذمے داری سے سنبھالنے اور تعاون کے طریقے تلاش کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**