محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین میں امریکہ اور دوسرے غیر ملکی صحافیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی سخت جاسوسی، ہراسگی اور دھمکیوں پر امریکہ کو گہری تشویش ہے۔
ایک بیان میں مسٹر پرائس نے حال ہی میں ہراساں کرنے کی ایسی ہی کارروائی کی مثال دی جس کے دوران غیر ملکی صحافیوں کو وسطی صوبے ہنان میں تباہ کن سیلاب اور جانوں کے ضیاع پر رپورٹنگ کے لیے خطرناک انداز میں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ متعدد صحافیوں کو آن لائن تشدد کی دھمکیاں دی گئیں اور دوسروں کو برہم ہجوم کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔
جیسا کہ ترجمان پرائس نے لکھا کہ کسی بھی ایسی خبر کے بارے میں جسے پی آر سی کی پالیسیوں پر تنقید خیال کیا جاتا ہے اور جس پر سرکاری ذرائع ابلاغ میں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے اس کی تشہیر کی جاتی ہے، منفی سرکاری ردِعمل سامنے آتا ہے۔ جس سے ذاتی طور پر سخت محاذ آرائی اور ہراسگی جنم لیتی ہے، جس میں صحافیوں کو جو محض اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں، آن لائن زیادتیوں اور موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں پی آر سی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے دعویٰ کیا کہ چین کے اندر غیر ملکی نامہ نگاروں کے لیے رپورٹنگ کا ماحول کھلا ہوا اور آزاد ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ چین میں غیر ملکی نامہ نگاروں کے کلب نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سے متعلق جو سالانہ رپورٹ جاری کی ہے اس میں 82 فی صد نامہ نگاروں نے جو سروے میں شامل تھے بتایا کہ انہیں رپورٹنگ کے دوران مداخلت، ہراسگی یا تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
پی آر سی کے بارے میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو خاص طور پر سنکیانگ میں جارحانہ انداز میں ہراساں کیا گیا۔
اس میں مستقل جاسوسی، ٹریفک کے جعلی حادثات، سڑکوں پر رکاوٹوں اور سائبر حملے شامل تھے۔ رپورٹ میں 2020 میں وال اسٹریٹ جنرل کے تین رپورٹرز اور واشنگٹن پوسٹ، وال اسٹریٹ جنرل اور وائس اف امریکہ کو سرکاری مشن کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، جس کے تحت ان تینوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ چین میں اپنے اسٹاف، مالی امور اور آپریشن کے بارے میں تفیصلات مہیا کریں۔
اس کے علاوہ محکمۂ خارجہ نے بتایا کہ ویزے کی تجدید کے عمل کو پی آر سی حکام نے صحافیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور اضافی غیر ملکی نامہ نگاروں کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے استعمال کیا جب کہ پریس کے غیر ملکی اداروں کے لیے کام کرنے والے مقامی ملازمین کو بڑھتی ہوئی ہراسگی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے خلاف بیجنگ کی مہم میں اضافہ اس وقت سے ٹھیک چند ماہ پہلے دیکھنے میں آ رہا ہے جب وہ 2022 کے سرمائی اولمپکس کی میزبانی کرنے والا ہے۔ ترجمان پرائس نے پی آر سی پر زور دیا کہ ایک ذمے دار قوم کا رویہ اختیار کرے اور آنے والے اولمپکس مقابلوں میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور دنیا کو خوش امدید کہے۔ انہوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ تیانجن میں پی آر سی کے عہدیداروں کے ساتھ اپنی حالیہ میٹنگ میں امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے ذرائع ابلاغ کی رسائی، ہراسگی سے پاک ماحول اور پریس کی آزادی کی اہمیت کا معاملہ اجاگر کیا۔
مسٹر پرائس نے کہا کہ ہم پی آر سی کے عہدیداروں پر زور دیں گے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافی محفوظ ہوں اور آزادانہ طور پر رپورٹنگ کر سکیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**