اس سال کے شروع میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک امدادی کارکن کو قید کی جو طویل سزا سنائی تھی، اسے سعودی اپیل کورٹ نے برقرار رکھا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ایک سعودی عدالت نے سعوری امدادی کارکن عبدالرحمن السادھان کی 20 سال کی قید اور اتنی ہی مدت کے لیے سفر پر پابندی کو برقرار رکھا ہے۔ وہ پرامن طور پر اظہار رائے کی آزادی کا اپنا حق استعمال کررہے تھے۔
ترجمان پرائس نے کہا کہ ہم نے قریب سے ان کے معاملے کا جائزہ لیا ہے اور ان الزامات پر ہمیں تشویش ہے کہ مسٹر السادھان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور یہ کہ وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ رابطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہ بھی کہ منصفانہ سماعت کی ضمانتوں کا احترام نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ ہم نے تمام سطحوں پر سعودی عرب کے عہدے داروں کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ آفاقی حقوق کا پرامن اظہار کبھی بھی قابل سزا جرم نہیں ہے۔
سادھان کو 12 مارچ 2018 کو دارالحکومت ریاض میں ہلال احمر سوسائٹی کے دفتر سے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں وہ کام کر رہے تھے۔ ان کی بہن عریج نے جو ایک امریکی شہری ہیں، اور ان کی رہائی کی وکالت کرتی رہی ہیں، کہا ہے کہ انہیں بغیر وار نٹ یا الزامات کے حراست میں لیا گیا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کے نامعلوم ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دراندازی کی گئی۔
اس خبر کے بعد کہ اپیل کرنے پر ان کی سزا برقرار رکھی گئی ہے، عریج نے کہا کہ ہمیں اس بات پر انتہائی صدمہ ہے۔
جنیوا میں قائم انسانی حقوق کے گروپ مینا کے مطابق السادھان پر اپریل میں مقدمہ چلایا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ دو طنزیہ ٹوئٹر اکاؤنٹ چلا رہے تھے اور دہشت گردی کے لیے فنڈ مہیا کر رہے تھے اور داعش کے عسکریت پسند گروپ کی حمایت کر رہے تھے، یا اس سے ہمدردی رکھتے تھے، اور ایسے پیغامات بھیج رہے تھے اور انہیں تیار کر رہے تھے اور جمع کر رہے تھے جن سے امن عامہ اور مذہبی اقدار کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ترجمان پرائس نے کہا کہ امریکہ ، سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں انسانی حقوق کے کردار پر برابر زور دیتا رہے گا، اور ایسی قانونی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرے گا جن سے تمام افراد کے انسانی حقوق کے احترام میں اضافہ ہوتا رہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**