امریکہ نے اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جو بڑے پیمانے پر مظالم کے قصور وار پائے جاتے ہیں۔
ایک پروگرام جو اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد گار ہوسکتا ہے وہ جنگی جرائم کا ریوارڈ پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت کسی بھی ایسی اطلاع پر 50 لاکھ ڈالر تک کے انعام کی پیشکش کی جاتی ہے جس کی مدد سے بعض ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جاسکے، انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکے یا ان کو سزائیں دی جاسکیں، جو جنگی جرائم، نسل کشی یا انسانیت کے خلاف جرائم کے بین الاقوامی ٹربیونل کو مطلوب ہوتے ہیں۔
یہ پروگرام امریکی محکمۂ خارجہ کا 'گلوبل کریمنل جسٹس' کا دفتر چلاتا ہے جس کی سربراہی گلوبل کریمنل جسٹس کے لیے سفیرِ عمومی مورس ٹن کرتے ہیں۔
ایک انٹرویو میں سفیر ٹن نے کہا ہے کہ اس وقت جنگی جرائم کے ریوارڈ پروگرام (ڈبلیو سی آر پی) نے ان چھ افراد پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے جو اب بھی مفرور ہیں اور جو اس نسل کشی میں اپنے کردار کے لیے 'انٹرنیشنل ریزیڈوول میکنزم فار کریمنل ٹربیونلز' کو مطلوب ہیں جس کے دوران 1994 میں روانڈا میں کم سے کم آٹھ لاکھ مرد، عورتیں اور بچے ہلاک کردیے گئے تھے۔
جسیا کہ سفیر ٹن نے توجہ دلائی، مئی 2020 میں ڈبلیو سی آر پی نے جن جنگی مجرموں کو فہرست میں شامل کیا تھا ان میں سے ایک کو پکڑ لیا گیا ہے۔
فلیسین کابوگا جو روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی مالی معاونت میں پیش پیش تھا اور جسے اس نسل کشی کو ہوا دینے والا سب سے بڑا سرغنہ خیال کیا جاتا تھا، پیرس کے مضافات سے پکڑا گیا۔ وہ 26 سال سے مفرور تھا اور جن لوگوں کو جنگی جرائم کے اس پروگرام سے متعلق فہرست میں شامل کیا گیا تھا، ان میں وہ سرِ فہرست تھا۔ اس کا پکڑا جانا ایک بڑی کامیابی تھی۔
روانڈا کے باقی چھ لوگ جو اب بھی 'وار کرائمز ریوارڈ پروگرام' کی فہرست میں شامل ہیں اور جو نسل کشی میں اپنے کردار کی بنا پر انٹرنیشنل میکنزم کو مطلوب ہیں، ان کے نام یہ ہیں: بروٹئیس ایم پی رانیا، کائیفلو جنس کاشیما، الوائیز نیم باٹی، سنیئس مونی روگا راما، چارلس سیکو بوابو اور ریان ڈیکا یو۔
جس کسی کو ان افراد کے بارے میں معلومات ہوں وہ رازدارانہ طور پر اس پروگرام سے
wcrp@state.gov
پر ای میل کر کے رابطہ کرسکتے ہیں یا
+1-202-975-5468
پر واٹس اپ یا ٹیکسٹ میسچ کرسکتے ہیں۔
سفیر ٹن نے کہا ہے کہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ ان لوگوں نے جو مظالم کیے ہیں ان کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ اور یہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس قسم کے وسیع جرائم کی روک تھام میں بھی اس کا ایک کردار بنتا ہے۔ سفیر ٹن کے بقول مستقبل میں اس نوعیت کی کھلی ناانصافیوں کے دوبارہ ارتکاب کو روکنے کے لیے احتساب ہی واحد بہترین طریقہ ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**