Accessibility links

Breaking News

امریکہ کی جانب سے عراق میں ایرانی حمایت یافتہ گروپ کے اہداف پر حملے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

شام میں ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے نو سو جب کہ عراق میں پچیس سو فوجی موجود ہیں جو اس اتحاد کا حصہ ہیں جس کا مقصد شدت پسند گروہ دولت اسلامیہ( یا داعش) کو پائیدار شکست دینا ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران ان امریکی فوجیوں پر ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کی جانب سے ڈرونز اور راکٹس کی مدد سے حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے درجنوں امریکی فوجی زخمی ہوئے۔ امریکہ نے کئی بار کہا ہے کہ وہ ان حملوں کا جواب اپنی مرضی سےاور مناسب وقت پر دے گا۔

چار جنوری دو ہزار چوبیس تک امریکہ نے ان حملوں کے جواب میں ان تنصیبات کو ہدف بنایا جہاں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ تربیت حاصل کرتے یا اپنا اسلحہ ذخیرہ کرتے ہیں جن سے دشمن کو معمولی جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

تاہم امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائیڈر نے صحافیوں کو بتایا
چار جنوری کو امریکہ نے اپنے فوجیوں کے دفاع کے لیے ایک مختلف طریقہ اختیار کیا۔

چار جنوری کو عراق کے وقت کے مطابق تقریباً بارہ بجے امریکی فوج نے حرکة النجابہ نامی گروہ کے رہنما مشتاق جواد کاظم الجواری المعروف ابو تقویٰ کے خلاف ضروری اور متناسب کارروائی کی۔

ابو تقویٰ امریکی فوجیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی اور ان کو عملہ جامہ پہنانے میں سرگرمی سے ملوث تھا۔ اس حملے میں اس گروپ (حرکةالنجابہ) کا ایک اور رکن بھی ہلاک ہو۔ یہ یاد رہے کہ یہ کارروائی اپنے دفاع کے لیے کی گئی تھی جس میں کسی شہری یا کسی تنصیب یا عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔

جنرل رائیڈر نے واضح کیا کہ امریکی افواج عراقی حکومت کی دعوت پر عراق میں موجود ہیں تاکہ داعش کو شکست دینے کے لیے (عراقی افواج کو) تربیت اور مشاورت فراہم کر سکیں اور یہ کہ امریکہ اپنی افواج کی حفاظت اور سلامتی کے لیے عراقی حکومت کے ساتھ قریبی مشاورت کرتا رہے گا۔

انہوں نے داعش کی جانب درپیش خطرات کا ذکر کیا جن میں ایران میں حالیہ دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا واقعہ اور ماضی کے واقعات بھی شامل ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا، حالیہ موسم گرما میں اس بات کو 10 سال ہو جائیں گے کہ داعش بغداد سے 10 کلومیٹر دور رہ گئی تھی، جب اس نے شام اور عراق کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا، اس وقت ہم نے داعش کے خاتمے کا مشن شروع کیا تھا۔

جنرل رائیڈر نے کہا کہ "کوئی بھی داعش کی واپسی نہیں چاہتا۔ ہمارا مقصد اب بھی داعش کو شکست دینا ہے لیکن اگر ہماری أفواج خطرے میں ہوئیں تو ہم ان کے تحفظ کے اقدامات میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ کوئی وسیع جھگڑا نہیں چاہتا۔
ہم ان گروہوں سے بھی تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن ہم اپنے فوجیوں کو خطرات کا سامنا کرتے دیکھ کر ایک طرف کھڑے دیکھتے نہیں رہیں گے، بلکہ ان کے تحفظ کے مناسب اقدامات کریں گے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG