امریکہ عرصہ دراز سے پوری دنیا میں صحت کی خاطر اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اعانت مہیا کرنے والا دنیا کا سب سے فیاض ملک رہا ہے۔ یہ اعانت امریکہ کے ٹیکس دہندگان کی مدد سے اس جائز توقع کے ساتھ مہیا کی جاتی ہے کہ اس سے مفید مقصد حاصل ہو گا اور یہ مستحق لوگوں تک پہنچے گی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹیگس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے عالمی ادارۂ صحت اس معیار پر پورا اترنے میں بالکل ناکام رہا ہے اور نہ صرف کرونا سے مقابلے کے معاملے میں بلکہ حالیہ عشروں میں صحت سے متعلق دوسرے بحرانوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی ادارۂ صحت نے نہایت ضروری اصلاحات پر عمل کرنے سے بھی انکار کیا ہے، جس کی ابتدا چین کی کمیونسٹ پارٹی سے قطعِ تعلق کے مظاہرے سے ہونی چاہیے تھی۔
اس کے نتیجے میں امریکہ نے عالمی ادارۂ صحت سے سرکاری طور پر اپنی علیحدگی کا اعلان کردیا ہے جس کا اطلاق چھ جولائی 2021 سے ہو گا۔
صحت کے شعبے میں دنیا کے دیگر ملکوں کے لیے امریکہ کا عزم بدستور مستحکم ہے۔ عالمی ادارۂ صحت سے علیحدگی سے پہلے انتظامیہ امریکہ کے کلیدی سرکاری محکموں اور اداروں اور امریکہ کے نجی شعبے کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کا جائزہ لیتی رہی ہے۔ تاکہ دوسرے ملکوں کو متعدی بیماریوں سے بچاؤ، ان کا پتا چلانے کے لیے ضروری ہنگامی اعانت اور انسانی ہمدردی کی امداد تیزی سے مہیا کی جا سکے۔
رواں صدی کے آغاز سے امریکی حکومت نے ایچ آئی وی۔ایڈز، ملیریا، تپِ دق، ایبولا اور دوسری خطرناک بیماریوں یا ان کی وجوہات سے بچنے، ان کا پتا چلانے اور علاج کے لیے 142 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی ہے۔
یو ایس ایڈ میں عالمی صحت سے متعلق معاون منتظم ڈاکٹر الما گولڈن کہتی ہیں کہ ہم عالمی صحت کی مد میں ہر سال اوسطً 10 ارب ڈالر دیتے ہیں اور اس سال یہ رقم اس سے دوگنی ہوگی جب کہ ہم دنیا بھر میں کرونا کا مقابلہ کرنے کے لیے کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔
امریکہ نے اس بات کو یقینی بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے کہ ڈبلیو ایچ او سے اس کی علیحدگی سے نہایت مخدوش حالات کا شکار ملکوں کے لیے صحت کے شعبے میں اس کی مجموعی اعانت کی سطح متاثر نہ ہو۔
ڈاکٹر گولڈن نے مزید کہا کہ امریکہ اپنی اجتماعی کوشش سے صحت اور انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل میں دنیا میں سب سے آگے ہے اور ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کر رکھا ہے کہ ہمارے فیاضانہ عطیات دنیا بھر کے لوگوں کو براہِ راست مہیا ہوتے رہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**