ہانگ کانگ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال

فائل فوٹو

اس بات کو ایک سال ہو گیا ہے جب عوامی جمہوریہ چین نے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی سے متعلق قانون پر عمل درآمد شروع کیا تھا۔ وہ قانون اور بعض دوسری حالیہ قانونی تبدیلیاں بیجنگ کی جانب سے ان وسیع کوششوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد ان آزادیوں کے دائرے کو سکیڑنا ہے جن کی چین اور برطانیہ کے مشترکہ اعلان اور بنیادی قانون کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔ قومی سلامتی سے متعلق قانون نے ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی مزید ابتری کو جنم دیا ہے۔

قومی سلامتی کے قانون کا ایک سال پورا ہونے پر ایک بیان میں وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس جانب توجہ دلائی کہ 2019 میں جب سے احتجاج شروع ہوا ہے، مقامی حکام نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لب کشائی کرنے پر ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اسی طرح صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی پر حراست میں لیا گیا ہے اور ہانگ کانگ کے حکام نے آزاد پریس کے خلاف سیاسی بنیاد پر ایک مستقل مہم شروع کر رکھی ہے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ بیجنگ نے جواب دہی، شفاف حکمرانی اور شخصی آزادیوں کے احترام کے حوالے سے ہانگ کانگ کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے اور اس نے اپنے وعدے سے انحراف کیا ہے کہ 50 برس تک ہانگ کانگ میں خود مختاری کی اعلی سطح کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔

ہانگ کانگ کے جمہوری اداروں کا گلا گھوٹنے اور بیجنگ کے جبر و استبداد کے پیشِ نظر امریکہ نے کارروائی کی ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے چین کے سات عہدے داروں کے خلاف تعزیرات عائد کی ہیں۔ ان میں ہانگ کانگ کے خصوصی انتظامی علاقے کی مرکزی عوامی حکومت کے رابطہ دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹرز شامل ہیں۔

یہ دفتر ہانگ کانگ میں اپنے اثر و رسوخ کو اُجاگر کرنے کے لیے چین کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ امریکہ کی کارروائی کے نتیجے میں ہانگ کانگ کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے پر ان کے اثاثوں کو منجمد کر دیا جائے گا۔

علاوہ ازیں امریکی محکمۂ خارجہ، محکمۂ خزانہ، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور محکمہ تجارت نے کاروبار سے متعلق ہدایت جاری کی ہے جس میں امریکی کاروباری اداروں کو قومی سلامتی کے قانون اور ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے والی دوسری قانونی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے آپریشنز اور سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔

ایک بیان میں محکمۂ خارجہ نے کہا کہ ہانگ کانگ میں گزشتہ برس کے دوران جو کچھ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے کثیر ملکی کمپنیز کو واضح طور پر انتظامی، مالی اور قانونی اعتبار سے خطرات لاحق ہیں اور ساتھ ہی ان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان خطرات میں الیکڑونک آلات سے ممکنہ جاسوسی اور اعداد وشمار کی راز داری کے معاملات، معلومات تک رسائی میں کمی اور امریکی تعزیرات پر عمل درآمد کی بنا پر کمپنیوں کے خلاف ممکنہ کارروائی اور قومی سلامتی کے قانون کے تحت ہانگ کانگ میں لوگوں کی ممکنہ گرفتاریاں شامل ہیں۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ چین کے عہدیداروں کے خلاف نئی تعزیرات اور تجارت سے متعلق ہدایات سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکہ، ہانگ کانگ کے بارے میں آواز بلند کرتا رہے گا اور بیجنگ کی وعدہ شکنی اور جابرانہ کارروائیوں کے لیے جواب دہی پر زور دیتا رہے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**