یمن میں انسانی صورتِ حال امریکہ کے لیے بدستور گہری تشویش کا باعث ہے۔ چھ سال پہلے جب سے بحران شروع ہوا ہے، یمن کو سب سے زیادہ عطیات دینے والے ملک کے طور پر امریکہ نے یمن کے لوگوں کے مصائب کے ازالے کے لیے 3.4 ارب ڈالرز کی امداد مہیا کی ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ شمالی یمن میں غیر سرکاری تنظیموں کی وساطت سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اعانت کو بحال کر رہا ہے تاکہ مخدوش حالات سے دوچار یمنی عوام کی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے اور اقوامِ متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے دی جانے والی امداد کے لیے امریکہ کی دیرینہ حمایت میں اضافہ کیا جا سکے۔
امریکہ یمن میں ایندھن، خوراک اور دوسری ضروری تجارتی اشیا کی آزادانہ ترسیل میں مدد فراہم کرتا ہے۔ تاہم اس کام کو کرنے کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ تجارتی ساز و سامان بندرگاہوں کے ذریعے سہولت سے گزر جائے بلکہ یہ بھی کہ پورے ملک بشمول ان علاقوں کے جو حوثیوں کے کنٹرول میں ہیں، ان اشیا کی ترسیل کی اجازت دے دی جائے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے علم میں ہے کہ حوثی اس آمد ورفت میں بدستور رخنہ ڈال رہے ہیں جس میں درآمدات کے لیے مخصوص رقم کو دوسرے کام میں لانا بھی شامل ہے جو سول سروس کی تنخواہوں کے لیے رکھی گئی تھیں۔ یہ بات اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت عائد کی جانے والی ذمے داریوں کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
اس کے نتیجے میں سول ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں اور ان کے پاس دستیاب خوراک کی خریداری کے لیے پیسوں کی کمی ہے۔ حوثیوں کی جانب سے ایندھن کی درآمدات کا رخ تبدیل کرنے سے ان کے کنٹرول والی یمنی آبادی میں اکثریت کے لیے انسانی بحران ابتر ہو رہا ہے۔
امریکہ، یمن اور سعودی عرب کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ خوراک، ایندھن اور دوسرا تجارتی سامان یمنی منڈیوں میں پہنچ سکے اور اسے بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے یا اپنی جنگی کارروائیوں میں استعمال کے لیے حوثی اسے ضبط نہ کر لیں۔
امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا ادارہ فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ عالمی تنظیم کے زیرِ اہتمام مذاکرات کا آغاز کریں۔ ان کی جانب سے امن کے لیے ایک تیز نظام الاوقات کی تجویز پیش کی جا رہی ہے جس کے تحت جنگ بندی اور بندرگاہوں تک رسائی کے معاملات پر توجہ دی جا سکے اور اگر فریقین تفصیلات پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں تو انہیں ساتھ ہی ساتھ تیزی کے ساتھ حل کیا جا سکے۔
ترجمان پرائس نے کہا کہ صرف ایک پائیدار امن معاہدے کے ذریعے ہی ہم یمن میں بدتر انسانی بحران کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈر کنگ دراصل ایک ایسے ہی معاہدے کے خواہش مند ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**