سعودی عرب پر حوثیوں کے حملے کی مذمت

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک سعودی شہری یمن کے حوثی باغیوں کے میزائل حملے میں اپنے گھر کو پہنچنے والا نقصان دکھا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے خلاف حال ہی میں جو ڈرون اور میزائل حملے کئے، اس کی امریکہ نے بھی دوسرے عالمی رہنماؤں کے ساتھ سخت مذمت کی۔ ستائیس فروری کو حوثیوں نے سعودی عرب میں ریاض اور دوسرے مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔

ایک تحریری بیان میں امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان حملوں سے نہ صرف بے گناہ شہریوں کو خطرہ درپیش ہوا ہے بلکہ یمن میں امن اور استحکام کے امکانات بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے ان مذموم حملوں کو بند کرنے کا کہا۔

عرب ریاستوں اور ساتھ ہی برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی ان حملوں کی مذمت کی جو ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے سرحد کے آر پار میزائل حملوں کے سلسلے کے تازہ ترین واقعات ہیں۔

حالاں کہ امریکہ سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے اندر لڑائی میں اتحادیوں کی جنگی کارروائیوں کے لئے تمام امریکی حمایت ختم کررہا ہے، امریکہ نے اس بات کا بدستور عہد کر رکھا ہے کہ وہ سعودی عرب کے اقتدارِ اعلٰی، اس کی علاقائی یکجہتی اور اس کے لوگوں کے دفاع میں مدد کرتا رہے گا۔

ایک پریس بریفنگ میں ترجمان پرائس نے اس جانب توجہ دلائی کہ امریکہ کی مدد سے سعودی عرب نے کامیابی کے ساتھ ستائیس فروری کے حملے کو ناکام بنایا، جس سے بے گناہ شہریوں کو خطرہ تھا۔

مسٹر پرائس نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اضافی اقدامات پر غور کر رہا ہے تاکہ حوثیوں کی قیادت میں کی جانے والی کاروائیوں پر جواب دہی کو یقینی بنایا جاسکے۔

دو مارچ کو امریکی محکمۂ خزانہ نے حوثیوں کے دو فوجی کمانڈروں کے خلاف تعزیرات کا اعلان کیا۔

ایک بیان میں محکمۂ خزانہ نے کہا کہ منصور السعدی، احمد علی احسن الحامزی حوثی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے ذمے دار ہیں جن سے یمنی شہری، پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی پانیوں میں تجارتی جہاز متاثر ہوئے۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے، جو عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ایرانی حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خاطر کی گئیں، یمن کے تنازعے کو ہوا ملی جس سے دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے اور یمن کو قحط کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے حوثیوں پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب کے اندر سرحد کے آر پار اپنے حملوں کو بند کر دیں بلکہ معارب پر بھی اپنے فوجی حملے بند کریں اور جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں اور مذاکرات کی میز پر آجائیں۔

صدر بائیڈن نے یمن میں جنگ کو روکنے کا تہیہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی بد ترین انسانی تباہی نے جنم لیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعہ تنازعے کا حل تلاش کیا جائے۔ ترجمان پرائس نے اس تعاون کو سراہا، جو اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے امریکہ کو سعودی عرب کی جانب سے حاصل ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امن کی جانب پیش رفت کے لیے حوثیوں کے طرزِ عمل میں بھی تبدیلی ضروری ہوگی۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**