انسانی زندگی کے بارے میں حوثیوں کا نظریہ

فائل فوٹو

سات جون کو حوثی باغیوں نے اقوامِ متحدہ کی متعدد ایجنسیوں، سفارتی مشنوں اور بین الاقوامی اور غیر سرکاری تنظیموں کے فلاحی کارکنوں کے گھروں اور دفاتر پر دھاوا بول دیا۔

انہوں نے تقریباً 50 افراد کو اغوا کیا جو سبھی یمنی شہری تھے۔ حوثیوں نے دعویٰ کیا کہ متاثرین اسرائیلی-امریکی جاسوسی نیٹ ورک کا حصہ تھے۔

اغوا کیے گئے افراد کا یہ تازہ ترین گروپ حوثیوں کے زیرِ حراست دیگر یرغمالوں میں شامل ہے۔ اگرچہ ان یمنی جنگجوؤں نے مئی میں 113 یرغمالوں کو رہا کیا جن کی رہائی صحت کی وجوہات کی بنا پر ممکن ہوئی۔ تاہم اب بھی متعدد افراد ان کی حراست میں ہیں جنہیں انہوں نے گزشتہ کئی مہینوں یا برسوں کے دوران اغوا کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں خصوصی سیاسی امور کے امریکی متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’ہم ان حراستوں کی مذمت کرتے ہیں اور حوثیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان قیدیوں کو فوری طور پر رہا کریں۔‘‘

رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’امریکہ ان اطلاعات سے سخت پریشان ہے کہ حوثی باغیوں نے اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں، رکن ریاستوں کے سفارتی مشنوں، نجی کمپنیوں، بین الاقوامی تنظیموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے کم از کم 50 یمنی ملازمین کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان زیر حراست افراد میں اقوام متحدہ کے 13 ملازمین بھی شامل ہیں۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’ہم حوثیوں کی جانب سے زیرِ حراست امریکہ کے موجودہ اور سابق مقامی عملے کے کردار سے متعلق غلط معلومات پھیلانے اور ٹیلی ویژن پر زبردستی اور جعلی نام نہاد اعترافات کے ذریعے کی جانے والی کوششوں کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔

سادہ حقیقت یہ ہے کہ حوثیوں نے ان افراد کو بغیر کسی جواز کے ڈھائی سال سے زیادہ عرصے سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے عملے کے ساتھ ان افراد کی حراست بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان سب کو فوری رہا کیا جائے۔

یمن کو اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہے۔ فلاحی کارکنوں کی حراست سے یمنی عوام کو انسانی امداد کی فراہمی پر ممکنہ طور پر سنگین اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ ان میں سے اکثر کو فوری طور پر مدد درکار ہے۔

سفیر ووڈ کہتے ہیں کہ ’’یمن میں انسانی صورتِ حال بدستور دشوار ہے اور یمنیوں کو بین الاقوامی برادری کی حمایت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے عملے کی گرفتاری انسانی امداد فراہم کرنے کی صلاحیت کو براہ راست اور منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔‘‘

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’حوثی ایک بار پھریمنی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے غلط معلومات کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

یہ کارروائیاں یمنی عوام کے بہترین مفاد میں کام کرنے کے حوثیوں کے عزم پر سوال اٹھاتی ہیں اور یہ صورتحال اس بات کا اظہار ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز اپنے نظریاتی مقاصد پر ہے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔