بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ساتھ عدم تعاون پر ایران کی سرزنش

فائل فوٹو

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے)کے بورڈ آف گورنرز نے بھاری اکثریت سے ایرانی حکومت کی سرزنش کی ہے کہ وہ ایران میں تین غیر اعلانیہ مقامات پر پائے جانے والے یورینیم کے آثار کے بارے میں سوالات کا مکمل جواب دینے سے قاصر رہی ہے۔

آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر رافیل گروسی نے اس معاملے میں آٹھ جون کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں ایران کے عدم تعاون کا ذکر کیا گیا اور رپورٹ پیش کی گئی۔

چھ جون کو ایک پریس بریفنگ میں ڈائریکٹر جنرل گروسی نے کہا کہ ایران نے ایسی وضاحتیں فراہم نہیں کیں جو ای ایجنسی کے حاصل کردہ ایران میں تین غیر اعلانیہ مقامات پر نتائج سےتیکنیکی اعتبار سے مطابقت رکھتی ہوں اور قابل اعتبار ہوں۔

انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ایران انتہائی افزودہ یورینیم کی "نمایاں مقدار" کے حصول میں صرف چند ہفتے کے فاصلے پر ہے۔

قرارداد کے حق میں 35 میں سے 30 ملکوں نے ووٹ دیا جب کہ دو ملکوں روس اور چین نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ بھارت، پاکستان اور لیبیا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

امریکہ نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں آئی اے ای اے کی قرارداد کا خیر مقدم کیا۔

چاروں ممالک نے کہا کہ قرارداد کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ "ایران کو ایک غیر مبہم پیغام بھیجتا ہے کہ اسے اپنی حفاظتی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے اور بقایا امور کے بارے میں تیکنیکی اعتبار سے قابل اعتبار وضاحتیں فراہم کرنا ہوں گی۔

امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کرے اور بغیر کسی تاخیر کے مسائل کے حل میں تعاون کرے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جان پیئر نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام پر تحفظات کو جوہری معاہدے پر ہونے والے مذاکرات سے الگ تھلگ رکھنا چاہتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ میز پر ایک ڈیل موجود ہے جسے ایران کو قبول کر لینا چاہیے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**"