سمندروں کا تحفظ

فائل فوٹو

سمندر زندگی کے لیے ناگزیر ہے جو ہماری ضرورت کی آدھی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ہماری آب و ہوا کو منظم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے اور ہمارے سیارے پر زندگی قائم رکھنے کے لیے مدد کرتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ عالمی معیشت کو فعال رکھنے میں ایک اہم عامل ہے۔ تاہم آج اسے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ آلودگی، ضرورت سے زیادہ ماہی گیری، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی رہائش گاہوں کا فقدان سب سمندرکے لیےنقصان دہ ہیں۔

سمندروں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ہم زمین پر موجود حیات کی حفاظت کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ سمندر کا تحفظ امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔

سمندروں اور بین الاقوامی ماحولیاتی اور سائنسی امور کی قائم مقام معاون وزیر جینیفر لٹل جان نے کہا کہ ’’ہم سمندروں کے تحفظ کے لیے جو کام کر رہے ہیں وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ ہمارے سیارے کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

امریکہ سمندری بقا کو برقرار رکھنے کی خاطر ماہی گیری کے لیے پائیدار طریقوں کو یقینی بنانے کا کام کر رہا ہے۔

ان طریقوں کی بنیاد ماہی گیری کے سائنسی نظام کے ساتھ ہم آہنگی پر ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ رپورٹ نہ کی جانے والی غیر قانونی، غیر رپورٹ شدہ اور غیر منظم ماہی گیری کو روکا جائے۔

قائم مقام وزیر لٹل جان نے کہا کہ امریکہ حکومتوں اور سول سوسائٹی دونوں میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کر کے سمندری نظم و نسق کو بہتر بنانے اور قواعد و ضوابط کے اطلاق کے لیے کوشاں ہے۔

امریکہ اس کے ساتھ ساتھ سمندری تحفظ والے علاقوں کو وسعت دینے اور حفاظتی اقدام کو مضبوط کرنے کی وکالت کر رہا ہے جس کا تعلق سمندروں اور خصوصی اقتصادی زون کے ساتھ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے پہل کرتے ہوئے سال 2030 تک اپنے دائرہ اختیار کے تحت تیس فیصد زمینی اور ساحلی پانیوں کی حفاظت کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

قائم مقام معاون وزیر لٹل جان نے بتایا کہ ’’ دوسری قوموں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ہم نے2022 اوشن کانفرنس میں سمندر کے تحفظ کا عہد کیا۔ اس عہد کے تحت ممالک اپنے دائرہ اختیار میں سمندر کے کم از کم تیس فیصد حصے کو محفوظ کر نے کے عزم سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘

آخر میں، ایک معاملہ پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق ہے جو سمندر کے لیے خاموش قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

امریکہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنا منصوبہ تیار کر رہا ہے اور متعدد ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تا کہ پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنے اور اس پر عمل درآمد کی صلاحیت پیدا کرنے کےعزم سے وابستگی کا اظہار کیا جائے۔

جینیفر لٹل جان کہتی ہیں کہ ’’ ایک اہم کوشش نجی شعبے اور دیگر غیر سرکاری افراد کو شامل کرنے کی ہو گی کیونکہ پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے سے صحیح معنوں میں نمٹنے کے لیے جدت اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس صورتحال پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**