مسلح تصادم میں شہریوں کا تحفظ

اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس سال مئی کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران دنیا بھر میں ایک سوسے زیادہ مسلح تنازعات رونما ہوئے اور چونکہ اس طرح کے تنازعات کی اوسط مدت 30 سال سے زیادہ ہے اس لیے عام شہریوں کو شدید اورطویل (عرصے تک جاری رہنے والی ) مشکلات کو برداشت کرنا پڑا۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ 2022 میں اقوامِ متحدہ نے 12 مسلح تنازعات میں تقریباً 17 ہزار شہریوں کی ہلاکتیں ریکارڈ کیں جو 2021 کے مقابلے میں 53 فی صد زیادہ ہے۔

اقوامِ متحدہ نے صرف یوکرین میں تقریباً آٹھ ہزار ہلاکتیں ریکارڈ کیں جب کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ یوکرین میں روس کی بلا اشتعال وحشیانہ جارحیت کی یہ انسانی قیمت ہے۔

اس جنگ نے یوکرین سے دور ممالک کی کمزور آبادیوں پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس تصادم کے نتیجے میں لاکھوں اور کروڑوں مزید افراد غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں ۔ کیوں؟ کیوں کہ روس نے یوکرین میں خوراک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ’’ جن لوگوں کو زبردستی اپنے گھروں سے نکلنا پڑا اور اس بات کا یقین بھی نہیں ہے کہ وہ کب واپس آسکیں گے۔ ایسے افراد کی حفاظت اور مدد کرنے کی ضرورت بھی برقرار رہے گی۔‘‘

ایک سو ملین سے زیادہ افراد کو تصادم، تشدد، ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کے نتیجے میں بے گھر ہونا پڑا ہے۔

برکینا فاسو، صومالیہ، برما اور یوکرین کو نقل مکانی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران کا سامنا ہے اور اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق سوڈان میں جاری لڑائی مزید 10 لاکھ افراد کو بے گھر کر سکتی ہے۔

سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’ہم سب کو بھوک کے خاتمے اور زندگیاں بچانے کے لیے مزید اقدام اٹھانے چاہئیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کوئی بھی امداد ی رقم دنیا کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی ضروریات کو پورا نہیں کرے گی اگر اسے دنیا کے ان کمزور افراد تک نہ پہنچایا جا سکے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’اکثر متحارب فریق جان بوجھ کرفلاحی امداد کی رسائی کو روکتے ہیں اور اکثر ان لوگوں کو ہدف بنایا جاتا ہے جو دوسروں کو بچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں۔

گزشتہ سال فلاحی سرگرمیوں میں مصروف اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے 250 سے زائد کارکن ہلاک ہوئے تھے۔ متعدد زخمی ہوئے، ان پر حملہ کیا گیایا انہیں اغوا کیا گیا۔

تنازعات کے دوران طبی عملے کے اغوا کا سلسلہ جاری ہے۔ امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس کی عالمی سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔

سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’مسلح تصادم کا سامنا کرنے والے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہمیں مل کر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں تکلیف سے دوچار افراد کے لئے اپنی مشترکہ انسانیت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے ۔ آئیے ہم اس تکلیف کو دور کرنے اور سب کے لیے زیادہ پرامن اور منصفانہ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**