یمن میں عارضی صلح کے اعلان کو اپریل میں ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔ اس جنگ بندی سے پہلے، اس تصادم نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے خلاف لاکھڑا کیا تھا جس کی حمایت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت میں ایک اتحاد کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی اس جنگ بندی کے نتیجے میں 2014 کے بعد سب سے طویل عرصے تک امن قائم رہا۔
اس عارضی صلح سے پہلے سات سال سے زیادہ کے تشدد نے یمن کی معیشت کو تباہ کر دیا اور دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا۔ آج اکیس اعشاریہ چھ ملین سے زیادہ لوگ انسانی امداد کے منتظر ہیں۔ تقریباً 60 لاکھ یمنی بے گھر ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد خوراک کے عدم تحفظ کے مختلف درجات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سے کچھ کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔
جنگ بندی نے زیادہ تر تشدد ختم کر دیا ہے اور مستقبل میں تنازع کے حل کی راہ ہم وار کر دی ہے لیکن لڑائی مکمل طور پر بند نہیں ہو سکی ہے۔ بہر حال نسبتاً سکون رہنے کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات میں 60 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ صنعاء کے ہوائی اڈے کو تجارتی پروازوں کے لیے کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ساتھ ساتھ، ایندھن کی درآمدات کو آسان بنانے کے اقدامات نے صاف پانی، بجلی، صحت کی دیکھ بھال اور مختلف خدمات تک رسائی کو بہتر بنایا ہے۔ لڑائی میں وقفے نے انسانی ہم دردی کی بنیادوں پر کام کرنے والے گروپوں کو ایسے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا ہے جن کو امداد کی ضرورت ہے۔
محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی زیرقیادت جنگ بندی اور امریکہ کی فراہم کردہ سفارت کاری نے بڑی حد تک لڑائی روک دی ہے جس سے ہزاروں شہریوں کی زندگیاں بچ گئی ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ جنگ بندی یمن کے لوگوں کے درمیان ایک جامع، سیاسی عمل اور تنازع کے پائیدار حل کی طرف صرف پہلا قدم تھا۔
صدر جو بائیڈن نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ جنگ بندی ایک اہم سنگِ میل ہے۔ اس جنگ بندی کو برقرار رکھنا اور امن کی طرف پیش رفت کو مضبوط بنانا، مشرقِ وسطیٰ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے میری حکومت کا اہم مقصد رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں اس معاملے پر بھرپور توجہ مرکوز رہے گی جب کہ ہم اس غیر معمولی پیش رفت کو آگے بڑھانے اور اس ہولناک تنازع کے جامع حل کے لیے تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ خطے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ وعدوں اور ایرانی حملوں کے خلاف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت کے لیے پوری طرح پابند ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یمن سے سرحد پار حملے پچھلے سال کے دوران بند ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی یمن کے اندر فضائی حملے بھی بند ہوئے، یہ جنگ بندی کا ایک اور مثبت نتیجہ ہے۔ میں، یمن میں جنگ کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے خطے میں اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کا منتظر ہوں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**