Accessibility links

Breaking News

چین کا ہانگ کانگ میں شخصی آزادیوں پر کریک ڈاؤن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حال ہی میں جاری کی گئی ہانگ کانگ پالیسی ایکٹ رپورٹ کے مطابق اس پچھلے سال عوامی جمہوریہ چین اور ہانگ کانگ کے حکام نے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو مجروح کرتے ہوئے اختلافِ رائے کو مزید مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔

ہانگ کانگ کی حکومت قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ پر قائم ہے اور ان لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے جنہیں وہ اپنا ناقد سمجھتی ہے، بغاوت کا قانون نافذ کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ مبینہ طور پر 1200 سے زیادہ افراد کو ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔

چین کے حکام نے گزشتہ برس ہانگ کانگ کے لوگوں کو شہر کی حکمرانی میں بامعنی کردار ادا کرنے کی صلاحیت استعمال کرنے سے بازر رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

جس میں ان کی یہ کارروائی بھی شامل ہے کہ پہلی بار صرف ایک امیدوار کو ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو کا انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔

ہانگ کانگ کے حکام نے ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی اور ہانگ کانگ میں لوگوں کی بنیادی آزادیوں کو مزید تباہ کرنے کے لیے بیجنگ کی طرف سے جون 2020 میں ہانگ کانگ پر نافذ کیے گئے قومی سلامتی کے قانون کا استعمال جاری رکھا۔

ہانگ کانگ کے حکام نے پرامن سیاسی اظہار کے لیے لوگوں کو گرفتار کرنے اور انہیں سزائیں دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ مقامی حکام نے آن لائن سیاسی تقاریر کرنے والوں پر مجرمانہ کارروائی کی فرد جرم عائد کی۔

حکام نے ان مقدمات میں مدعا علیہان کے حقوق کو نظرانداز کرنا جاری رکھا جنہیں قومی سلامتی سے متعلق مقدمات قرار دیا گیا جس میں ان کی ضمانت سے انکار، انہیں طویل عرصے تک مقدمے کی سماعت سے قبل حراست میں رکھنا؛ جیوری کے ذریعہ مقدمے کی سماعت کےحق سے انہیں محروم کرنا اور یہ شرط عائد کرنا شامل ہے کہ ان کے مقدمات کی سماعت وہ جج کرے گا جسے بیجنگ کے توثیق کردہ چیف ایگزیکٹو نے نامزد کیا ہو۔

ہانگ کانگ اور PRC حکام نے ایسے سول سوسائٹی گروپوں، میڈیا کمپنیوں، سرگرم کارکنوں، صحافیوں، سیاسی جماعتوں، مزدور یونینوں اور دیگر افراد اور تنظیموں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جن پر انہوں نے ہانگ کانگ کی جمہوریت کی تحریک سے منسلک ہونے یا حکومت پر تنقید کرنے کا الزام لگایا۔

حکام نے ہانگ کانگ کے سابق کیتھولک بشپ، 90 سالہ کارڈینل جوزف زین اور دیگر کو ’’غیر ملکی قوتوں کے ساتھ ملی بھگت‘‘ کے شبہے میں گرفتار کیا تھا۔

ہانگ کانگ کے حکام نے دو ایسے اداروں کے خلاف جو اس وقت بند ہو چکے ہیں یعنی میڈیا کمپنی ایپل ڈیلی اور اسٹینڈ نیوز کے ایڈیٹرز اور ایگزیکٹوز کے خلاف قانونی کارروائی کی۔ ان میں ایپل ڈیلی کے بانی جمی لائی بھی شامل ہیں جن کے خلاف قومی سلامتی سے متعلق مبینہ جرائم کے لیے قانونی کارروائی کی گئی، اور اسٹینڈ نیوز پر جمہوریت نواز سیاست دانوں سے متعلق مضامین شائع کرنے کے لیے، بغاوت کا الزام لگایا۔ ہانگ کانگ کے پابند سیاسی ماحول کے پیشِ نظر آزاد ذرائع ابلاغ کے بند ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔

ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے PRC حکام پر زور دیا کہ وہ ہانگ کانگ کے لوگوں کے محفوظ حقوق اور آزادیوں کو بحال کریں، غیر منصفانہ طور پر نظر بند یا قید کیے گئے افراد کو رہا کریں، اور ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کا احترام کریں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG