یوکرین پر فروری 2022 میں روس کے غیر ضروری اور غیر قانونی حملے کے بعد سے روسی فیڈریشن نے بار بار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس بلا کر اس بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’بین الاقوامی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات ‘‘ کی آڑ میں اس جنگ کا ذمہ دار کون ہے۔
اس نوعیت کی بحث کے اکثر موضوعات میں سے ایک نارڈ اسٹریم قدرتی گیس پائپ لائنوں پر حملہ ہے۔ یہ گیس پائپ لائن بحیرہ بالٹک سے گزرتی ہے۔
26 ستمبر 2022 کو پانی کے اندر ہونے والے دھماکوں کے ایک سلسلے کے نتیجے میں چار میں سے تین پائپ لائنوں میں گیس کا اخراج ہوا اور وہ ناکارہ ہو گئیں۔
اس واقعے کی تین الگ الگ تحقیقات ڈنمارک، سوئیڈن اور جرمنی نے کی جن میں سے آخری تحقیقی عمل ابھی جاری ہے۔ تاہم ان حملوں کے لیے کسی کو بھی ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکا۔
روس اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں ان ممالک سے معلومات کا مطالبہ کرتا ہے، ان پر ذمہ داروں کو بچانے کا بے بنیاد الزام لگاتا ہےاور بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔
پولیٹیکل منسٹر کونسلر جان کیلی کہتے ہیں کہ ’’امریکہ نورڈ اسٹریم پائپ لائنوں کے خلاف تخریب کاری کی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے اور احتساب کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ لیکن ہم سب پر یہ بات واضح ہو نی چاہیے کہ یہ اجلاس اور اس سے پہلے کے اجلاس احتساب کے بارے میں نہیں ہیں۔
جان کیلی کا کہنا ہے کہ ’’روس نے بار بار اس موضوع پر بات کرنے کے لیے میٹنگیں بلائی ہیں تاکہ غلط معلومات فراہم کیے جا سکیں اور غلط فہمیاں پیدا کی جا سکیں اوربدستور جاری قومی تحقیقات کو رسوا کیا جا سکے۔
روس کے تازہ ترین الزامات کو قائم رکھنا مشکل ہے لیکن ایک بات بدستور موجود ہے اور وہ ہے ’’ہدف ہونے کے بیانیے کو تقویت دینا۔
روس کے نمائندوں نے اپریل کے آخر میں ایک بار پھر ’’اہم بنیادی ڈھانچے کی تخریب کاری‘‘ پر افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن انہوں نے یوکرین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف روس کے جان بوجھ کر اور جاری حملوں کے حوالے سے اس طرح کی کسی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا۔
روسی فیڈریشن کی مسلسل شکایات واضح طور پر ایک ایسا عمل ہے جس کا مقصد اپنی کارروائیوں سے توجہ ہٹانا ہے۔
سفیر کیلی نے کہا کہ ’’روس کی جانب سے نیک ارادوں، انصاف کے حصول، اور اہم انفراسٹرکچر کی حفاظت کی ضرورت کے دعوے اتنے ہی کھوکھلے ہیں جتنے کہ وہ خود غیر مخلص ہیں۔
روس اہم بنیادی ڈھانچے کی تخریب کاری پر تشویش کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یوکرین کے شہروں میں تباہی پھیلا تا اور یوکرین کے اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بناتا ہے۔
روس ایک طرف تو حقائق تلاش کرنے کے مشنوں اور آزاد تحقیقات میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے اور دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر یا او ایچ سی ایچ آر کی اس یوکرینی علاقے تک رسائی کو انکار کرتا ہے جو اس وقت عارضی طور پر روس کے قبضے میں ہیں۔
سفیر کیلی نے کہا کہ ’’روس ایک جانب تو سچائی، جواب دہی اور حقائق جاننے کی خواہش کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا 1718 کمیٹی پینل جیسے آزاد تفتیشی طریقہ کار کی تجدید کو ویٹو کرتا ہے۔ یہ منافقت اتنی ہی خوفناک ہے جتنی کہ اس کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔