امریکہ نے اگست کے مہینے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالی اور عالمی غذائی عدم تحفظ سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے توجہ مرکوز کی۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ’’دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 260 ملین لوگ ایسے ہیں جو شدید طور پر غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’خوراک کا عدم تحفظ تنازعات کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جبری نقل مکانی ہوتی ہے۔ یہ ذاتی اور اقتصادی ترقی دونوں کو روکتا ہے۔ خوراک کا عدم تحفظ ممالک کو ترقی کرنے سے روکتا ہے اور لوگ بہتر طور پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
وزیرِ خارجہ کہتے ہیں کہ ’’دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم خوراک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے اور ایک کے بعد ایک تنازعے میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
ہمارےساتھ صرف 91 ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ خوراک کے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کو ختم کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ یہ ایک طاقت ور بیان ہےاور ہم دوسروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس عزم میں شامل ہوں۔
یہ صورتِ حال یوکرین میں سب سے زیادہ واضح ہے جہاں روس نے بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کو ختم کر دیا۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین کو خوراک برآمد کرنے کی اجازت ملی تھی۔
روس جان بوجھ کر یوکرین میں خوراک کے ذخائر کو نشانہ بنا رہا ہے اور حقیقتاً خوراک کے ساتھ ساتھ اس کے پیداواری ذرائع کو تباہ کر رہا ہے۔
روس کے اقدامات کے نتیجے میں دنیا بھر میں غذائی عدم تحفظ کے سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ ’’امریکہ نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دنیا بھر کے ممالک کو خوراک کی مد میں 14.5 بلین ڈالر کی اضافی امداد فراہم کی ہے۔ ہم ورلڈ فوڈ پروگرام میں اب تک سب سے زیادہ تعاون کرنے والے ملکوں میں شامل ہیں ۔یہ پروگرام کے سالانہ بجٹ کا 50 فی صد ہے۔
بلنکن کا کہنا ہے کہ جو ہنگامی امداد ہم اور دیگر ممالک فراہم کر رہے ہیں وہ کافی نہیں ہے۔
اقوامِ متحدہ اور خاص طور پر ورلڈ فوڈ پروگرام نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت ہمیں دنیا بھر میں 100 ملین سے زیادہ لوگوں کے غذائی عدم تحفظ کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’بالآخر ہمیں ایک طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کرنا ہوگا۔
ایک اندازے کے مطابق 2050 تک اس سیارے کی آبادی 10 بلین تک پہنچ سکتی ہے اور اس وقت خوراک کی طلب آج کے مقابلے میں 50 فی صد بڑھنے کا امکان ہے جب کہ پیداوار کم ہو رہی ہے اور اس میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ’’ہمیں اس چیلنج سے نمٹنا ہو گا اور’ ویژن فار اڈاپٹڈ کراپس اینڈ سوائل ‘جیسے پروگراموں کے ذریعے ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔
یہ امریکہ کا ایک نیا اقدام ہے جس کے تحت ہم زیادہ طاقت وراور زیادہ غذائیت سے بھرپور خوراک پیدا کر سکتے ہیں۔
اس سے آنے والے وقتوں میں یقیناً فرق پڑے گا اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ ہمارے پاس دنیا بھرمیں پیداوار اور زرعی صلاحیت موجود ہے۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ شہریوں کو گلی کوچوں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ بچوں کو یتیم کیا گیا، زبردستی بھرتی کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
خواتین کے ساتھ بے دردی سے زیادتی کی گئی۔ لڑائی کے نتیجے میں ضرورت مند لوگوں تک انسانی امداد، خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی فراہمی رک گئی ہے۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ ریپڈ سپورٹ فورسز اور اتحادی ملیشیازنے مغربی دارفور میں مظالم اور زیادتیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے اعلان کیا کہ امریکہ ان مظالم کی مذمت کرتا ہے جن کے بارے میں اطلاعات سامنے آئی ہیں اور جو دارفور میں 2004 کی نسل کشی کی یاد دلاتی ہیں۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں شمالی اور وسطی دارفور میں مزید تنازعات کے خطرے کے بارے میں سخت تشویش ہے۔
خاص طور پر الفشر کے قریب ریپڈ سپورٹ فورسز اور اس سے منسلک فورسز کے جمع ہونے کی اطلاع علاقے میں غیر عرب آبادیوں کے لیے خطرہ ہے۔
ہمیں سوڈان میں مسلح عوامل کی غیر مصدقہ اطلاعات پر گہری تشویش ہے جوتحفظ کے متلاشی لوگوں کو دارفور کے علاقے چھوڑنے سے روک رہے ہیں۔ ان میں سرحد پار چاڈ کا رخ کرنے والے افراد بھی شامل ہیں ۔‘‘
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری ذمہ داری ہے کہ نہ صرف انسانی حقوق کا احترام کریں بلکہ ان کا دفاع بھی کریں۔ ہم سب کو فریقین سے مطالبہ کرنا چاہئیے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کریں۔ امریکہ اور اس کے بین الاقوامی شراکت دار فریقین سے فوری طور پر ہتھیار رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ اس دوران سوڈان کے لوگوں کے لیے انسانی امداد کے کلیدی واحد عطیہ دہندہ کے طور پر تقریباً دس لاکھ دیگر افراد کی مدد کے لیے کام کر رہا ہےجو اندرونی طور پر بے گھر ہوگئے ہیں اور پڑوسی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے خبردار کیا ہے کہ بیوروکریٹک اور دیگر رکاوٹیں امدادی سرگرمیوں میں خلل ڈال رہی ہیں۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’ ہم سوڈانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکام کرنے والے کارکنوں کے لیے ویزے کی منظوری کا عمل تیز کریں ۔سوڈان بھر میں انسانی ہمدردی کے عملے اور سامان کی نقل و حرکت کو فعال کریں، اور فلاحی سامان اور آلات کی درآمد میں سہولت فراہم کریں۔‘‘
سفیر کا کہنا ہے کہ ’’ہم سب کو سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز پر زور دینا چاہیے کہ وہ خونریزی ختم کریں اور سوڈانی عوام کے مصائب کو ختم کریں۔ اس تنازعہ کا کوئی فوجی حل قابل قبول نہیں ہے اور امن کے لیے مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا۔