عراق بہتر مستقبل کی جانب گامزن

فائل فوٹو

عراق اورامریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کے پیشِ نظر دونوں ملکوں نے جون 2020 میں اعلٰی سطح کے کئی فوجی اہمیت کے مذاکرات شروع کیے۔ اس اعلٰی سطح کے اجلاس کا چوتھا دور جولائی کے آخر میں واشنگٹن ڈی سی میں ہوا جس میں عراق کے لیے امریکی حمایت کے وسیع تر دائرے پر توجہ دی گئی۔

عراق کی سلامتی کا معاملہ ایجنڈے پر اولیت کا حامل تھا۔ دونوں ملکوں نے کئی برسوں تک مل کر کام کیا ہے تاکہ عراق اور اس کے لوگوں کو خطرات سے دور رکھا جائے خاص کر دہشت گردی کے خطرات سے۔ جیسا کہ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ دونوں ممالک داعش کے خلاف جنگ میں قریب ترین شراکت دار ہیں۔

لیکن ان کے بقول میں سجھتا ہوں کہ آج جو کچھ سامنے ہے وہ یہ کہ امریکہ اور عراق کے درمیان شراکت داری، داعش کے خلاف مشترکہ جنگ سے بھی زیادہ وسیع تراورگہری ہے۔ امریکہ کو ہمارے دور کے بعض نہایت اہم چیلنجوں سے نمٹنے میں عراق کے ساتھ شراکت داری پر فخر ہے، چاہے وہ کووڈ نائنٹین کی عالم گیر وبا کے خلاف جنگ ہو، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا معاملہ ہو یا دوبارہ قابلِ استعمال توانائی میں سرمایہ کاری کرنے کی بات ہو۔

مثال کے طور پر امریکہ کووڈ نائنٹین کے پانچ لاکھ ٹیکے اور طبی عملے کے لیے ساز و سامان اور تربیت مہیا کرے گا۔ امریکہ نے حال ہی میں اضافی انسانی امداد کے طور پر ساڑھے پندرہ کروڑ ڈالر کا بھی اعلان کیا تاکہ پورے عراق میں پناہ گاہیں، صحت کی دیکھ بھال کی سہولتیں، خوراک، پینے کا پانی اور حفظانِ صحت کی خدمات مہیا کی جا سکیں۔

موسمیاتی تغیر کے بحران سے نمٹنے میں عراق کو مدد دینے کی خاطر امریکہ صاف توانائی کے لیے تیکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔ چاہے وہ عراق کو سب سے زیادہ انسانی امداد دینے یا عراقیوں کے لیے مواقع پیدا کرنے کی بات ہو، اس شراکت داری میں زبردست وسعت اور گہرائی مضمر ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکہ نے عراق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے مشن یا 'یو این اے ایم آئی' کے لیے فنی انتخابی اعانت کی مد میں ستانوے لاکھ ڈالر مہیا کیے ہیں۔

امریکہ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ اکتوبر میں عراق کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حمایت کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں پیش پیش ہے تاکہ عراق کے عوام اپنی آواز بلند کر سکیں اور اپنے رہنماؤں کا انتخاب کرسکیں۔

اور آخری بات یہ ہے کہ امریکہ آبادی کے اس حصے کی بحالی میں عراق کی اعانت کررہا ہے، جنہیں داعش نے نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح ثقافتی شعبے میں بھی حوصلہ افزائی کی کوششوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور بابل، موصل، اربل اور دوسرے مخدوش مقامات پر آثٖارِ قدیمہ کے منصوبوں کے تحفظ میں مدد فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے بہت سے مقامات کو داعش نے نقصان پہنچایا تھا۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم شراکت داری کے ساتھ اکٹھے آگے بڑھ رہے ہیں، جس کی بنیاد باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر ہے اور جو کام ہم آج کر رہے ہیں، وہ اسے آگے لے جائے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**