اقوامِ متحدہ میں تائیوان کی معنی خیز شراکت کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔ وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ ایک تحریری بیان میں انہوں نے کہا کہ تائیوان جمہوری اعتبار سے کامیابی کی مثال ہے۔ اس نے جو اصول اپنائے ہیں اس میں شفافیت کی حمایت، انسانی حقوق کا احترام اور قانون کی حکمرانی شامل ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو اقوام متحدہ کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ تائیوان عالمی پیمانے پر اعلیٰ ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور سیاحت، ثقافت اور تعلیم کا ایک مرکز ہے۔ ہم اقوامِ متحدہ کے بہت سے ایسے رکن ممالک میں شامل ہیں جو تائیوان کو ایک قابلِ قدر شراکت دار اور بااعتماد دوست خیال کرتے ہیں۔
امریکہ ایک زیادہ کھلے طرزِ عمل کی حمایت کرتا ہے جس سے بین الاقوامی برادری اور خود اقوامِ متحدہ کا ادارہ تائیوان کی مہارت اور مدد کرنے کے جذبے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تائیوان ایسی ٹیکنالوجی کی تیاری میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے جس سے نہ صرف ہماری معیشتوں بلکہ ہماری حکومتوں اور معاشروں کے مستقبل کا تعین ہو گا۔ دنیا کو تائیوان کی مہارت درکار ہے تاکہ معیار کے تعین میں مدد مل سکے اور مستقبل کا ایک ایسا راستہ طے کیا جا سکے جس میں ٹیکنالوجی کے ذریعے جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کا بغیر کسی نقصان کے عمل دخل ہو۔
امریکہ "ایک چین" کی پالیسی پر قائم ہے۔ اس پالیسی کے مطابق امریکہ تائیوان سے تعلقات کے ایکٹ سے ہم آہنگی رکھتے ہوئے اس کے ساتھ مضبوط غیر رسمی تعلقات رکھتا ہے۔
جیسا کہ وزیرِ خارجہ بلنکن نے واضح کیا کہ پچھلے 50 برس کے دوران بیشتر اوقات میں تائیوان اقوامِ متحدہ کے بعض خصوصی اداروں میں بھرپور طور پر شرکت کرتا رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں تائیوان کو اقوامِ متحدہ کی کوششوں میں اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ اس کے باوجود کہ سالانہ کروڑوں مسافر اس کے ہوائی اڈوں سے سفر کرتے ہیں، تائیوان کی شہری ہوابازی کی بین الاقوامی تنظیم میں نمائندگی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ہمیں کووڈ-19 کی عالمگیر وبا کے سلسلے میں تائیوان کے بہترین ردِ عمل سے بہت کچھ سیکھنا ہے، تائیوان عالمی ادارۂ صحت کی تنظیم میں شامل نہیں ہے۔
دنیا بھر سے سول سوسائٹی کے ارکان، اقوامِ متحدہ میں ہر روز کی سرگرمیوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن تائیوان کے سائنس دان، فنی ماہرین، کاروباری لوگ، فن کار، اساتذہ، طالبِ علم، انسانی حقوق کے علم بردار اور دوسرے لوگوں کو داخلے اور ان سرگرمیوں میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ محض وہ پاسپورٹ ہے جن کے وہ حامل ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے واضح طور پر کہا کہ تائیوان کو علیحدہ رکھنے سے اقوامِ متحدہ اور اس کی متعلقہ تنظیموں کے اہم کام کو نقصان پہنچتا ہے جن کو اس کی خدمات سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ اقوامِ متحدہ کے پورے نظام اور بین الاقوامی برادری میں تائیوان کی بھرپور اور معنی خیز شراکت کی حمایت میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں جو ہماری "ایک چین" کی پالیسی سے ہم آہنگ ہو، جو تائیوان سے تعلقات کے ایکٹ، تین مشترکہ اعلامیوں اور چھ یقین دہانیوں کے مندرجات سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**