حماس نے آٹھ اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی شہریوں پر زمینی، فضائی اور سمندری حملہ کیا۔
اس تنازعے میں 1,000 سے زیادہ جانوں کا زیاں ہو چکا ہے جس میں کم از کم 14 امریکی بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’’امریکہ حماس کے دہشت گردوں کے اسرائیل کے خلاف اس خوفناک حملے کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔‘‘
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے حماس کے حملے کو ’’1973 میں یوم کپور جنگ کے بعد اسرائیل پر بدترین حملہ‘‘ قرار دیا۔ وزیرِ خارجہ نے این بی سی ٹیلی ویژن کے ’’میٹ دی پریس‘‘پروگرام میں کہا کہ ’’تاہم اس میں ایک بڑا فرق بھی ہے۔‘‘
"وزیر خارجہ بلنکن کہتے ہیں کہ وہ ایک ریاست پر ریاستی تنازعہ تھا اور فوج کے خلاف فوج صف آرا تھی جس میں محاذ واضح تھے۔ تاہم یہ ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے جس میں اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، لوگوں کو ان کے قصبوں میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
انہیں ان کے گھروں میں گولی مار کر مار دیا گیا ہے۔ غزہ کے ساتھ سرحد پار کرکے اسرائیلی مردوں، عورتوں اور بچوں کو گھسیٹا گیا۔ ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے وہیل چیئر پر بیٹھے شخص، خواتین اور بچوں سبھی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ حماس نے اسرائیلی شہریوں کے خلاف "آئی ایس آئی ایس یا داعش کی نوعیت کی ’’ وحشیانہ کارروائی‘‘ کی ہے جس میں ’’گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا اور موسیقی کے تہواروں میں نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ دفاع اسرائیل کو ’’مختلف قسم کے جنگی سازوسامان اور شدید ضرورت کے دیگر آلات کی فراہمی کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے۔‘‘ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اعلان کیا کہ یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ بحری بیڑہ اسرائیل کی طرف رونہ کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ بلنکن نے حماس کے حملے میں ایران کے ممکنہ کردار کے حوالے سے کہا کہ ’’ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ ایران اس حملے میں براہ راست ملوث تھا۔ لیکن یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ہم بغور جائزہ لے رہے ہیں اور ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حقائق ہمیں کس طرف لے جاتے ہیں۔‘‘
وزیر خارجہ نے کہا ’’لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایران کے حماس کے ساتھ طویل عرصے سے تعلقات ہیں وہ لمبے عرصے سے ان کی حمایت کرتا آ یا ہےاور یہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جن کی بنا پر ہم ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے جارحانہ انداز میں کام کر رہے ہیں۔ اس میں 400 سے زیادہ ایرانی افراداور کمپنیوں پر پابندی لگانا بھی شامل ہے۔ خاص طور پر اس حمایت کے لیے جو حماس کو فراہم کی گئی ہے۔‘‘
صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ ’’اسرائیل کی حکومت اور عوام کے لیےحمایت کے تمام مناسب وسائل پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔
صدر کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کبھی بھی جائز نہیں ہے۔ اسرائیل کو اپنا اور اپنے لوگوں کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ امریکہ اسرائیل سے دشمنی رکھنے والے کسی بھی ایسے فریق کو خبردار کرتا ہے جو اس صورت حال میں فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہے۔ امریکہ کی ’’اسرائیل کی سلامتی کے لیے حمایت ٹھوس اور غیر متزلزل ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**