ایران کی حمایت یافتہ پراکسیز سے امریکی اہلکاروں اور مفادات کا دفاع

فائل فوٹو

امریکہ نے اردن میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے ہاتھوں جنوری کے اواخر میں تین امریکی فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر اپنے ردِعمل کی ابتدا کر دی ہے۔

امریکی افواج اس خطے میں ایک اتحاد کا حصہ ہیں جو آئی ایس آئی ایس یا داعش کو شکست دینے کا ذمے دا رہے۔

امریکہ نے دو فروری کو عراق اور شام میں پچاسی ایسےاہداف پر فضائی حملے کیے جنہیں ایران کی پاسداران انقلاب کور اور اس سے منسلک گروپ امریکی افواج پر حملوں کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔

امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ہمارے ردِعمل کا آغاز ہے۔

صدر نے امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں کےحوالے سے پاسداران انقلاب کور اور اس سے منسلک ملیشیاؤں کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے مزید کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

پینٹاگان کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے ایک پریس بریفنگ میں ان تنصیبات کے بارے میں بتایا جنہیں پاسدارانِ انقلاب کور اور اس سے تعلق رکھنے والی ملیشیائیں استعمال کرتی ہیں۔

انھیں تنصیبات کو امریکی حملوں میں ہدف بنایا گیا۔ میجر جنرل کا کہنا ہے کہ ’’کمان اینڈ کنٹرول آپریشنز سینٹرز، انٹیلی جینس سینٹرز، راکٹس، میزائیلز، غیر انسان بردار فضائی گاڑیاں، ذخیرہ گاہیں، لاجسٹکس اور گولہ بارود سپلائی چین کی تنصیبات ( ان اہداف میں شامل ہیں ) ہماری توجہ ان صلاحیتوں کو ناکارہ بنانا ہے جنہیں یہ گروپ استعمال کرتے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ نے اپنے اتحادیوں کی حمایت سے تین فروری کو ایک الگ دفاعی کارروائی میں ایرانی حمایت یافتہ پراکسیز کے خلاف یمن کے اندر حوثی اہداف پر متناسب حملوں کا ایک اور سلسلہ شروع کیا۔

یہ تیسری مرتبہ ہے کہ اتحاد نے دفاعی کارروائی میں یمن کے اندر ہدفوں کو نشانہ بنایا اور یہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بین الاقوامی جہازوں اور امریکی بحریہ کے جہازوں پر مہینوں سے حوثیوں کے جاری حملوں کا جواب ہے۔

میجر جنرل رائیڈر نے کہا کہ یہاں توجہ اس بات پر ہے کہ اس قسم کے حملے کرنے کی ان کی صلاحیتوں میں خلل ڈالا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم ان سے یہ کہنا جاری رکھیں گے کہ وہ اپنی کارروائیاں فوری طور پر بند کریں۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ہم نہ صرف بین الاقوامی جہاز رانی اور بحیرہ احمر سے گزرنے والے ان ملاحوں کے دفاع کے لیے بلکہ حملے کرنے کی صلاحیتوں کو کم کرنے اور ان میں خلل ڈالنے کے لیے مناسب کارروائیاں کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

میجر جنرل رائیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ ’’امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں تصادم کو بڑھانا نہیں چاہتا اور انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران سے پھر یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی پراکسیز کی عدم استحکام کا باعث بننے والی کارروائیوں کی حمایت کرنا بند کردے۔

میجر جنرل رائیڈر نے خبردار کیا کہ ہم اپنی فورسز کے تحفظ کے لیے مناسب کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔