امریکہ بھارت تعلقات وسعت پذیر

فائل فوٹو

صدر جو بائیڈن نے امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو اکیسویں صدی کے ’’ تاریخ ساز تعلقات‘‘ قرار دیاہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ 25 برسوں میں ہمارے تعلقات کا سفر مثالی اور غیر معمولی رہا ہے۔ وہ امریکہ بھارت بزنس کونسل کی ’انڈیا آئیڈیاز سمٹ ‘ میں بات کر رہے تھے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ہم اس تاریک ساز تعلق کو دنیا کی دو قدیم جمہوریتوں کے درمیان ایک منفرد ربط کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرنا ہماری ذمے داری ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے فرائض کی ادائیگی کر سکتی ہیں اور اپنے عوام کو مضبوط بنا سکتی ہیں۔

اُن کے بقول ہم سمجھتے ہیں کہ اس باہمی عزم کی شراکت داری سے ہم علاقائی اور عالمی چیلنجوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ لیکن ہمارےاسٹرٹیجک تعلقات کی بنیاد ہمارے ملکوں کے درمیان اقتصادی رابطوں پر ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ سال تجارت ریکارڈ 191بلین ڈالر تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا۔

امریکی کمپنیوں نے بھارت میں اب تک کم از کم 54بلین ڈالر کی سرمائی کاری کی ہے جس کا تعلق مینو فیکچرنگ سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن سے ہے۔

بھارتی کمپنیوں نے امریکہ میں آئی ٹی، دوا سازی اور مختلف شعبوں میں 40 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں کیلی فورنیا سے جارجیا تک چار لاکھ پچیس ہزار ملازمتوں کی اعانت ہو رہی ہے۔

بھارت انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک کے تین بنیادی عوامل میں بھی شامل ہے جن میں مزید لچک دار سپلائی چینز تشکیل دینے، شفاف توانائی کے مواقع کی تلاش اور بدعنوانی سے نمٹنے جیسے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

امریکہ اوربھارت ہر سطح پر اسٹرٹیجک ٹیکنالوجی پر مبنی شراکت داری میں اضافہ کر رہے ہیں کیوں کہ دونوں ممالک کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے احترام سے آگاہی ضروری ہے۔

اُن کے بقول اس تمام تعاون کا بنیادی نکتہ قابلِ اعتماد ممالک کے ساتھ سپلائی چین میں تنوع پیدا کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک انحصار کو بھی کم کرنا ہے۔ آخرکار امریکہ اور بھارت اپنے لوگوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا ہے امریکہ اوربھارت کے تعلیمی نظام نے معروف کمپنیوں کے لیے لیڈر پیدا کیے ہیں۔ بھارت نژاد امریکیوں نے امریکہ میں تمام تارکینِ وطن کی طرف سے تخلیق کی گئی کمپنیوں کا ایک تہائی حصہ تشکیل دیا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے مستقبل کے لیے سبسے اہم ہے۔

اُن کے بقول دو لاکھ سے زیادہ بھارتی طالب علم امریکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں جو بھارت کو امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک بنا دیتا ہے۔

امریکہ اور بھارت شفافیت کو آگے بڑھانے، مارکیٹ تک رسائی کو فروغ دینے اور اپنی جمہوریتوں کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے تاکہ اپنے لوگوں کی بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**