کافی عرصے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ لیبیا میں انصاف کا عمل بند ہو گیا ہے کیوں کہ جن پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام تھا وہ ایک بار پھر معافی کے ساتھ بچ نکلیں گے۔
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فروری 2011 میں تین ملزموں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ دو ملزمان کی موت کی وجہ سے دو وارنٹ واپس لے لیے گئے تھے جب کہ ایک ملزم سیف الاسلام قذافی ابھی تک مفرور ہے۔
لیبیا کی خانہ جنگی کا آغاز 2014 میں ہوا اور عالمی عدالت انصاف یا آئی سی سی نے دھمکی دی کہ جو بھی براہ راست جنگی جرائم کا ارتکاب کرے گا یا اس کا حکم دے گا، اس کے خلاف مقدمہ چلا یا جائے گا۔ لیکن ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ ملزم معافی کے ساتھ بچ نکلا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے کہا کہ درحقیقت بہت عرصے سے مجھے یقین تھا کہ لیبیا کے حالات میں ابتری کی اجازت دی گئی۔
آئی سی سی نے تین سال قبل تحقیقات میں نئی جان ڈالی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے 14 مئی کو بریفنگ کے ایک حصے کے طور پر بات کرتے ہوئے پراسیکیوٹر خان نے اعلان کیا کہ آئی سی سی کی تحقیقات 2025 کے آخر تک مکمل ہو جائیں گی اور سال کے ختم ہونے سے پہلے مقدمے کی سماعت شروع ہو جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے مشن میں امریکہ کے قانونی مشیر مارک سائمنوف نے کہا کہ امریکہ تحقیقاتی عمل میں تیزی نئی ترجیحاتی کوششوں، گرفتاری کے لیے اضافی وارنٹ طلب کرنے اور بغیر کسی تاخیر کے مقدمے کی کارروائی شروع کرنے کے ارادے پر آئی سی سی کی تعریف کرتا ہے۔ لیکن کامیابی کا انحصار لیبیا کے حکام کے تعاون پر بھی ہے۔
مارک سائمنوف نے کہا کہ ’’ہم لیبیا کے حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عالمی احتساب کی کوششوں کی حمایت کریں اور ان میں پیش رفت کرنے اور آئی سی سی کے ساتھ تعاون کو بڑھانے کے لیے مزید کام کریں۔
قذافی حکومت کے سیف الاسلام قذافی جیسے سابق سینئرعہدیداروں کو انصاف کا سامنا کرنا چاہیے کیوں کہ وہ آج بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کے تحت مطلوب ہیں۔
مارک سائمنوف نے کہا کہ ’’امریکہ لیبیا میں متاثرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ بڑھتے ہوئے رابطے کا خیرمقدم کرتا ہے جو متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کے لیے انتہائی اہم ہے اور جنہوں نے اپنی بات سنی جانے کے لیے بہت طویل انتظار کیا ہے۔
مارک سائمنوف کہتے ہیں کہ ’’متاثرین اور بچ جانے والے انصاف کے مستحق ہیں اور یہ انصاف لیبیا کے مستقبل کے لیے ایک طاقت وراور مستحکم قوت ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم خاص طور پر متاثرین اور بچ جانے والوں کو بااختیار بنانے اور گواہوں کے تحفظ پر زور دینے کی تعریف کرتے ہیں۔
مارک سائمنوف نے کہا کہ ’’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سیاسی طور پر غیر یقینی صورتِ حال کو حل کرنے اور احتساب کو فروغ دینے اور لیبیا میں دائمی عدم استحکام سے نمٹنے کے لیے ابھی طویل جدوجہد درکار ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور زیادتیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کہ ان جیسے مسائل کو حل کرنے اور احتساب کو فروغ دینے کے لیے بامعنی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔